affiliate marketing Famous Urdu Poetry: MoUsam Poetry
Showing posts with label MoUsam Poetry. Show all posts
Showing posts with label MoUsam Poetry. Show all posts

Saturday, 16 April 2016

کبھی موسموں کے سراب میں

کبھی موسموں کے سراب میں

کبھی بام و در کے عذاب میں

وہاں عمر ہم نے گزار دی،

جہاں سانس لینا مُحال تھا

 

 اعتبار ساجد.

Thursday, 31 March 2016

وہ کہتی ہے سنو جاناں محبت موم کا گھر ہے

وہ کہتی ہے سنو جاناں محبت موم کا گھر ہے
تپش اک بد گمانی کی کہیں پگھلا نہ دے اس کو
میں کہتا ہوں کہ جس دل میں ذرا بھی بدگمانی ہو
وہاں کچھ اور ہو تو ہو محبت ہو نہیں سکتی
وہ کہتی ہے سدا ایسے ہی کیا تم مجھ کو چاہو گے
کہ میں اس میں کمی بالکل گوارا کر نہیں سکتی
میں کہتا ہوں محبت کیا ہے یہ تم نے سکھایا ے
مجھے تم سے محبت کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
وہ کہتی ہے جدائی سے بہت ڈرتا ہے میرا دل
کہ خود کو تم سے ہٹ کر دیکھنا ممکن نہیں ہے اب
میں کہتا ہوں کہ یہی خدشے بہت مجھ کو ستاتے ہیں
مگر سچ ہے محبت میں جدائی ساتھ چلتی ہے
وہ کہتی ہے بتاؤ کیا میرے بن جی سکوو گے تم
میری یادیں، میری آنکھیں، میری باتیں بھلا دو گے
میں کہتا ہوں کبھی اس بات پر سوچا نہیں میں نے
اگر اک پل کو بھی سوچوں تو سانسیں رکنے لگتی ہیں
وہ کہتی ہےتمہیں مجھ سے محبت اس قدر کیوں ہے
کہ میں اک عام سی لڑکی ہوں تمہیں کیوں خاص لگتی ہوں
میں کہتا ہوں کبھی خود کو میری آنکھوں سے تم دیکھو
میری دیوانگی کیوں ہے یہ خود ہی جان جاؤ گی
وہ کہتی ہے مجھے وارفتگی سے دیکھتے کیوں ہو
کہ میں خود کو بہت ہیی قیمتی محسوس کرتی ہوں
میں کہتا ہوں متاع جاں بہت انمول ہوتی ہے
تمہیں جب دیکھتا ہوں زندگی محسوس ہوتی ہے
وہ کہتی ہے بتاؤ نا کسے کھونے سے ڈرتے ہو
بتاؤ کون ہے وہ جسکو یہ موسم بلاتے ہیں
میں کہتا ہوں یہ میری شاعری ہے آئینہ دل کا
ذرا دیکھو بتاؤ کیا تمہیں اس میں نظر آیا
وہ کہتی ہے کہ آتش جی بہت باتیں بناتے ہو
مگر سچ ہے کہ یہ باتیں بہت ہی شاد رکھتی ہیں
میں کہتا ہوں یہ سب باتیں، فسانے اک بہانہ ہیں
کہ پل کچھ زندگانی کے تمہارے ساتھ کٹ جائیں
پھر اس کے بعد خاموشی کا اک دلکش رقص ہوتا ہے
نگاہیں بولتی ہیں اور یہ لب خاموش رہتے ہیں....

عاطف سعید

Sunday, 27 March 2016

دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے


دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے
پھر بھی خُوشبو کے ہاتھ پِیلے ہُوئے

بد گُمانی کے سَرد موسم میں
میری گُڑیا کے ہاتھ نِیلے ہُوئے

جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی
تب کہیں بارشوں کے حیلے ہُوئے

وقت نے خاک وہ اُڑائی ہے
شہر آباد تھے جو ٹِیلے ہُوئے

جب پرندوں کی سانس رُکنے لگی
تب ہواؤں کے کُچھ وسیلے ہُوئے

کوئی بارش تھی بد گُمانی کی
سارے کاغذ ہی دِل کے گَیلے ہُوئے

- نوشی گیلانی

Friday, 25 March 2016

ہم ترے خواب دیکھتے رہیں گے

سو رہیں گے کہ جاگتے رہیں گے
ہم ترے خواب دیکھتے رہیں گے
تو کہیں اور ڈھونڈتا رہے گا
ہم کہیں اور ہی کھلے رہیں گے
راہ گیروں نے رہ بدلنی ہے
پیڑ اپنی جگہ کھڑے رہیں گے
لوٹنا کب ہے تونے پر تجھ کو
عادتاَ ہی پکارتے رہیں گے
برف پگھلے گی اور پہاڑوں میں
سالہا سال راستے رہیں گے
تجھ کو چھونے کے بعد کیا ہوگا
دیر تک ہاتھ کانپتے رہیں گے
سبھی موسم ہیں دسترس میں تری
تو نے چاہا تو ہم ہرے رہیں گے
ایک مدت ہوئی ہے تجھ سے ملے
تو تو کہتا تھا رابطے رہیں گے
تجھ کو پانے میں مسئلہ یہ ہے
تجھ کو کھونے کے وسوسے رہیں گے
شکریہ مستقل مزاجی کا
ہم ترے ہیں تو ہم ترے رہیں گے

Thursday, 24 March 2016

جو اس کے چہرے پہ رنگ حیا ٹھہر جائے



جو اس کے چہرے پہ رنگ حیا ٹھہر جائے
تو سانس، وقت، سمندر، ہوا ٹھہر جائے
وہ مسکرائے تو ہنس ہنس پڑیں کئی موسم
وہ گنگنائے تو باد صبا ٹھہر جائے
سبک خرام صبا چال چل پڑے جب بھی
ہزار پھول سر راہ آ ٹھہر جائے
وہ ہونٹ ہونٹوں پہ رکھ دے اگر دم آخر
مجھے گماں ہے کہ آئی قضا ٹھہر جائے
میں اس کی آنکھوں میں جھانکوں تو جیسے جم جاؤں
وہ آنکھ جھپکے تو چاہوں ذرا ٹھہر جائے

Monday, 21 March 2016

"محبت کر کے دیکهتے ہیں"

"

"محبت کر کے دیکهتے ہیں"
محبت پھر سے کر کے د یکھتے ہیں ہم
جہا ں چھو ڑا تھا تم نے
ر خصتی کے سرد مو سم میں
و ہیں چلتے ہیں پھر ا ک بار
ا و ر عہد و فا کو ہا تھ تھا مے یا د کر تے ہیں
چلو پھر سے
محبت کر کے د و نو ں د یکھتے ہیں ہم
تمہیں خو شبو پسند تھی
میں بہا ر و ں کے سبھی پھو لو ں کو
ا پنے سا تھ لا یا ہو ں
تمہیں با ر ش پسند تھی
با د لو ں کے سا تھ بر کھا لے کے آ یا ہو ں
تمہیں تا ر و ں بھر ی ر ا تو ں میں
د ل کا حا ل کہنے میں مزہ آ تا تھا
میں سا ر ے ستا ر ے
آ سما نو ں سے چُرا کے
بس تمہیں سُننے کو آ یا ہو ں
چلو پھر سے محبت کر کے
د و نو ں د یکھتے ہیں ہم
یہ مُمکن ھے کہ تم بھی
گز ر ے موسم کی طرح و ا پس پلٹ آ و
خز ا ں آ تی ہے
لیکن فصل گُل
پت جھڑ کے گھا و آ کے بھر تی ہے
یہی ہے را ز ہستی
ختم ہو تے ہی ا ند ھیر ے کے
نیا د ن
ا ک نر ا لے با نکپن سے پھر نکلتا ہے
تو کیا مُمکن نہیں
ہم مل سکیں دونوں
چلو ا ک با ر کو شش کر د یکھں ہم
محبت کر کے د یکھں
انور زاہدی

Tuesday, 19 January 2016

آنکھیں


وہ آنکھیں
جھیل سی آنکھیں
بہت گہری ہیں
ان میں تیرتے آنسو
کئی مفہوم رکھتے ہیں
وہ آنکھیں
ایک مدت سے
بدلتے موسموں
بنتے،بگڑتے منظروں کی زد میں ہیں
لیکن
انہیں کچھ خواب
اپنے مخملیں احساس سے مسحور رکھتے ہیں
وہ آنکھیں
منتظر ہیں،کب کوئی آئے
حسیں خوابوں کو اپنے سحر سے
تعبیر میں بدلے
بہت سی ان کہی باتوں کے در کھولے
بہت سے بے نشاں جذبوں کو
آحساس شراکت دے

وہ گہری جھیل سی آنکھیں
کئی قصے سنانے کے لیے بے چین پھرتی ہیں
وہ گہری جھیل سی آنکھیں
کئی مفہوم رکھتی ہیں
 

Monday, 26 October 2015

سب کچھ نام تمھارے


آج یہ سب کچھ نام تمھارے
ساحل
ریت
سمندر
لہریں
بستی
دوستی
صحرا
دریا
خوشبو
موسم
پھول
دریچے
بادل
سورج
چاند
ستارے
آج یہ سب کچھ نام تمھارے
خواب کی باتیں
یاد کے قصے
سوچ کے پہلو
نیند کے لمحے
درد کے آنسو
چین کے نغمے
اڑتے وقت کے بہتے دھارے
روح کی آہٹ
جسم کی جنبش
خون کی گردش
سانس کی لرزش
آنکھ کا پانی
چاہت کے یہ عنوان سارے
آج یہ سب کچھ نام تمھارے

Saturday, 10 October 2015

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جس کو ہمسفر جانیں
کہ جو شریک درد ہو
وہی ہم سے بچھڑ جائے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؟
کہ آنکھیں جن خوابوں کو
حقیقت جان بیٹھی ہوں
وہ سب سپنے بکھر جائیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؟
کہ جس کے ساتھ پہروں ساعتیں
ہم نے گزاری ہوں
اسی سے ربط ٹوٹ جائے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؟
خزاؤں کے دیوانے کو
بہاروں میں بہاروں سے محبت ہونے والی ہو
اور موسم بدل جائے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؟
کہ جس کے نام کے آگے ہمارا نام آیا ہو
جسے محرم بنایا ہو
اسی کو اپنے ہاتھوں سے، کسی کو سونپ کر آئیں

Saturday, 3 October 2015

ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﺑﮭﺮﮮ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ
ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ
ﺟﺴﮯ ﺑﺲ ﯾﮧ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﮭﯽ
ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﺮﻡ ﺣﺮﻓﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻼﺣﺖ
ﺗﯿﺮﮮ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﻟﮯ
ﺍﺳﮯ ﺑﺲ ﯾﮧ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﮭﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﯽ ﺣﺴﺮﺕ ﺗﮭﯽ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ۔۔۔ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺗﻨﮩﺎ ﮨﻮ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﺑﮭﺮﮮ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ
ﺟﺴﮯ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﺎ ﺩﮐﮫ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ..!!!



Friday, 2 October 2015

Tum udas mat hona

 
Tum udas mat hona
Agar kabhi koi lamha
Aisa zakhm de jaye
K koi bhi marham us
Zakhm ko na bher paye
Tum udas mat hona
Mehv-e-yaas mat hona
Zindgi k sub mausam
Aik se nahi hote
Saray log ay humdum
Aik se nahi hote
Zindgi ki rahon main
Hadsey bhi atey hain
Hadson se barh ker kuch
Waaqay bhi atay hain
Waqt k hi marhum se
Zakhm bher bhi jatay hain
Din buray hon ya achay
Bus guzer hi jatay hain
Waqt ko guzerna hai
Zakhm ko bhi bherna hai
Dard k charhay derya
Ko abhi uterna hai
Tum udas mat hona
Mehv-e-yaas mat hona

Saturday, 9 May 2015

محبت یوں نہیں اچھی ۔۔۔۔






کوئی وعدہ نہیں ہم میں
نہ آپس میں بہت باتیں
نہ ملنے میں بہت شوخی
نہ آخرِ شب کوئی مناجاتیں
مگر ایک ان کہی سی ہے
جو ہم دونوں سمجھتے ہیں
عجب ایک سرگوشی سی ہے
جو ہم دونوں سمجھتے ہیں
یہ سارے دلرُوبا منظر
طلسمی چاندنی راتیں
سنہری دُھوپ کے موسم
یہ ہلکے سُکھ کی برساتیں
سبھی ایک ضد میں رہتے ہیں
مجھے پہم یہ کہتے ہیں
محبت یوں نہیں اچھی
محبت یوں نہیں اچھی ۔۔۔

Wednesday, 5 February 2014

Bicharney waley chaley jo ho to bata key jao بچھڑنے والے چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ

Bicharney waley chaley jo ho to bata key jao بچھڑنے والے چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ
بچھڑنے والے
چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔

کہ کتنی شامیں اداس آنکھوں میں کاٹنی ہیں ؟
کہ کتنی صبحیں اکیلے پن میں گزارنی ہیں ؟

بتا کے جاؤ

کہ کتنے سورج عذاب رستوں کو دیکھنا ہے ؟
کہ کتنے مہتاب سرد راتوں کی وسعتوں سے نکالنے ہیں ؟

بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہ چاند راتوں میں وقت کیسے گزارنا ہے ؟
خاموش لمحوں میں تجھ کو کتنا پکارنا ہے ؟

بتا کے جاؤ۔ ۔ ۔ ۔

کہ کتنے لمحے شمار کرنے ہیں ہجرتوں کے ؟
کہ کتنے موسم اک ایک کر کے جدائیوں میں گزارنے ہیں ؟

بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔

کہ پنچھیوں نے اکیلے پن کا سبب جو پوچھا

تو کیا کہوں گا ۔ ۔ ۔ ؟ ؟ ؟

کسی نے رستے میں روک کر جو مجھ سے پوچھا
کہ پچھلے موسم میں ساےٴ ساےٴ جو اجنبی تھا ۔ ۔ ۔!!۔
کہاں گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
تو کیا کہوں گا ۔ ۔ ۔ ۔؟ ؟

بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں کس سے تیرا گلہ کروں گا ؟
بچھڑ کے تجھ سے حبیب.. کس سے ملا کروں گا ؟
بتا کے جاؤ کہ آنکھ برسی تو کون موتی چنا کرے گا؟
اداس لمحوں میں دل کی دھڑکن سنا کرے گا ؟
بتا کے جاؤ کہ موسموں کو پیام دینے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟ یا نہیں ؟
فلک کو ، تاروں کو ، جگنوؤں کو سلام دینے ہیں ۔ ۔ ۔؟ یا نہیں ؟

بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔

کہ کس پہ ہے اعتبار کرنا ؟
تو کس کی باتوں پہ بےنیازی کے سلسلے اختیار کرنا ؟
بتا کے جاؤ کہ اب رویوں کی چال کیا ہو ؟
جواب کیا ہو ؟۔ ۔ ۔ سوال کیا ہو ؟ ۔ ۔ ۔
عروج کیا ہو ؟ ۔ ۔ ۔ ، زوال کیا ہو؟ ۔ ۔ ۔
نگاہ ، رخسار ، زلف ، چہرہ.. نڈھال کیا ہو ؟

بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہ میری حالت پہ چاندنی کھلکھلا پڑی تو
میں کیا کروں گا ۔ ۔ ؟؟

بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔

کہ میری صورت پہ تیرگی مسکرا پڑی تو
میں کیا کروں گا ۔ ۔ ۔ ؟؟

بتا کے جاؤ

کہ تم کو کتنا پکارنا ہے ؟
بچھڑ کے تجھ سے یہ وقت کیسے گزارنا ہے ؟
اجاڑنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ نکھارنا ہے ۔ ۔ ۔ ؟
بدن کو کتنا سوارنا ہے ۔ ۔ ۔ ؟

چلے جو ہو تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
!!بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
—-کہ لَوٹنا بھی ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟ یا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Friday, 10 January 2014

Bheegney ka barish mein shoq hai baja lekin

بھیگنے کا بارش میں
شوق ہے بجا لیکن
سرد ہو چلا موسم
ہوسکے تو بارش میں
بھیگتے نہیں رہنا
اور سرد ہواؤں میں
دور دور ہی رہنا
جیسے مجھ سے رہتے ہو

Saturday, 4 January 2014

Gaey mosam mein jo khiltey they gulabon ki tarha

گئے موسم میں جو کِھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اُتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح

راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے‘مرے خوابوں کی طرح

ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح

وہ سمندر ہے تو پھر رُوح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح

کون جانے نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

شوخ ہوجاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ‘ ترے دلچسپ جوابوں کی طرح

ہجر کی شب ‘ مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو ‘مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح

Friday, 3 January 2014

Teri tarha malaal mujhe bhi nahi raha

تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا
جا، اب ترا خیال مجھے بھی نہیں رہا

تُو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑ دی
اب شوقِ ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا

میرا جواب کیا تھا ، تجھے بھی خبر نہیں
یاد اب ترا سوال، مجھے بھی نہیں رہا

جس بات کا خیال نہ تُو نے کیا کبھی
اُس بات کا خیال مجھے بھی نہیں رہا

توڑا ہے تُو نے جب سے مرے دل کا آئینہ
اندازہء جمال مجھے بھی نہیں رہا

باقی میں اپنے فن سے بڑا پُرخلوص ہوں
...اِس واسطے زوال مجھے بھی نہیں رہا

Ussey kehna

اسے کہنا
ہمیں کب فرق پڑتا ہے؟
کہ
ہم تو شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتّے
بہت عرصہ ہوا ہم کو
رگیں تک مر چکیں دل کی
کوئی پاوٴں تلے روندے
جلا کر راکھ کر ڈالے
ہوا کے ہاتھ پر رکھ کر
کہیں بھی پھینک دے ہم کو
سپردِ خاک کر ڈالے
ہمیں اب یاد ہی کب ہے؟
کہ ہم بھی ایک موسم تھے

Ab ke saal kuch aisa karna

ﺍﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﻝ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﺎ
ﺍﭘﻨﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺑﺎﺭﮦ ﻣﺎﮦ ﮐﮯ
ﺩُﮐﮫ ﺳﮑﮫ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻧﺎ
ﺑﮑﮭﺮﯼ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﮐﺮﻧﺎ
ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﺍﮎ ﮐﺎﻏﺬ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﺑﮭﻮﻟﮯ، ﺑﺴﺮﮮ ﭘﻞ ﻟﮑﮫ ﻟﯿﻨﺎ
ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﻞ ﻟﮑﮫ ﻟﯿﻨﺎ
ﺳﺎﺭﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﮐﺮﻧﺎ
ﺳﺎﺭﯼ ﺻﺒﺤﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮐﺮﻧﺎ
ﺳﺎﺭﯼ ﺷﺎﻣﯿﮟ ﭘﺎﺱ ﺑﻼﻧﺎ
ﺍﻭﺭ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻮﺳﻢ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺍﮎ ﺍﮎ ﯾﺎﺩ ﮔﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﭘﮭﺮ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻧﺎ
ﮔﺮ ﺗﻮ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ
ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻏﻢ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ
ﻣﺖ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﺗﮑﻠﻒ ﮐﺮﻧﺎ
ﺩﯾﮑﮭﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺗﻢ ﻟﮯ ﻟﯿﻨﺎ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻢ ﺩﮮ ﺩﯾﻨﺎ
....

Sunday, 29 December 2013

Khuda ra Ab nahi ana

دسمبر جا رہے ہو ناں
خدارا اب نہیں آنا
مقدر کے شکستہ طاق پر رکھی
وہ بوسیدہ سی جو پہلی محبت ہے
شکستہ سی مگر فاصب بہت ظالم
بہت قاتل رفاقت ہے
انھیں بھی ساتھ لے جانا
میری سوچوں کی مسند پر
جو حاکم اس کی یادیں ہیں
ہے گردش زہر قاتل سی
کہ جس میں گونجتی رہتی ہیں
ہماوقت اس کی باتیں
انھیں بھی ساتھ لے جانا
یہ وحشی ہجر کے موسم
جو صدیوں سے میرے جیوں پہ قابض ہیں
یہ خستہ جسم، بسمل جان بھی فریاد کرتے ہیں
دسمبر سن رہے ہو ناں
!!!.....دسمبر اب نہیں آنا