affiliate marketing Famous Urdu Poetry: January 2016

Thursday 21 January 2016

چلو چھوڑو!


چلو چھوڑو!
محبت جھوٹ ہے۔
عہدِ وفا اِک شغَل ہے بے کار لوگوں کا
’’طَلَب ‘‘ سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
’’ خلش ‘‘ دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
’’ خُمارِ وصل ‘‘ تپتی دھوپ کے سینے پہ اُڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
’’ غبارِ ہجر ‘‘ صحرا میں سَرابوں سے اَٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو۔۔۔۔!
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تُم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے
رنگ بدلوگی!
چلو چھوڑو۔۔۔!
وہ سارے خواب کچّی بھُر بھُری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہارے اُنگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں میرا لیکن
تمہاری اُنگلیاں تو عادتاً یہ جُرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو۔۔۔!
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں
صدیوں سے
چلو چھوڑو۔۔۔!
میرا ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اِک نیا موسم اُترنے دو!
’’ میرے خوابوں کو مرنے دو ‘‘
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھّو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں سے کچّے رابطے توڑو
چلو چھوڑو۔۔۔!
محبت جھوٹ ہے۔۔!
عہدِ وفا اِک شَغل ہے بے کار لوگوں کا۔۔۔۔!!

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفوُ کی ہے

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفوُ کی ہے
نہ کرَم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نِگاہ ہم پہ عدُو کی ہے

صَفِ زاہداں! ہے تو بے یقیں، صَفِ مے کشاں! ہے تو بے طلب
نہ وہ صُبْح، وِرد و وضُو کی ہے، نہ وہ شام، جام و سبُو کی ہے

نہ یہ غم نیا، نہ سِتم نیا، کہ تِری جفا کا گِلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مُضطرب، یہ کسک تو دِل میں کبھو کی ہے

کفِ باغباں پہ بہارِ گُل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پُھول کے پَیرَہَن میں نمُود میرے لہُو کی ہے

نہیں ‌خوفِ روزِ سِیہ ہمَیں، کہ ہے فیض! ظرفِ نِگاہ میں
ابھی گوشہ گِیر وہ اِک کِرن، جو لگن اُس آئینہ رُو کی ہے

فیض احمد فیض
 

Tuesday 19 January 2016

آنکھیں


وہ آنکھیں
جھیل سی آنکھیں
بہت گہری ہیں
ان میں تیرتے آنسو
کئی مفہوم رکھتے ہیں
وہ آنکھیں
ایک مدت سے
بدلتے موسموں
بنتے،بگڑتے منظروں کی زد میں ہیں
لیکن
انہیں کچھ خواب
اپنے مخملیں احساس سے مسحور رکھتے ہیں
وہ آنکھیں
منتظر ہیں،کب کوئی آئے
حسیں خوابوں کو اپنے سحر سے
تعبیر میں بدلے
بہت سی ان کہی باتوں کے در کھولے
بہت سے بے نشاں جذبوں کو
آحساس شراکت دے

وہ گہری جھیل سی آنکھیں
کئی قصے سنانے کے لیے بے چین پھرتی ہیں
وہ گہری جھیل سی آنکھیں
کئی مفہوم رکھتی ہیں