affiliate marketing Famous Urdu Poetry: Muhabbat Poetry
Showing posts with label Muhabbat Poetry. Show all posts
Showing posts with label Muhabbat Poetry. Show all posts

Wednesday, 25 April 2018

Muhabbat


سنو یہ جو تھوڑی سے محبت باقی ہے
ہم اس کو بچا لیتے ہے
اب ہم بچھڑ جاتے ہیں


Wednesday, 13 April 2016

محبت وہ آسمانوں پر رقم احساس ہے جاناں



محبت وہ آسمانوں پر رقم احساس ہے جاناں

 کہ جس کی روشنی سےیہ زمیں بے حد منور ہے
 کہ جسکی ضوفشانی سے یہاں ہر احساس جھلمل ہے..
محبت بحر باراں اور قلزم کو لہر دیتی ..
صحرا دلوں پہ یہ معصوم جب اپنا نقش دھرتی ہے
تو بنجر رہگزر بھی آنکھ کھولے کسمساتی ہے 

 کوئ آہٹ جامد دل کی ساعت گدگداتی ہے
 محبت
 دعا کی چلمن میں مقدس سی چمکتی ہے.
 کبھی چپ میں مچلتی سی ..
اشکوں میں دمکتی ہے..
محبت یاد کا قصہ

 .. خلوت جلوت بناتا ہے..
محبت آس کا حصہ..

 سکینت گدگداتا ہے ..
محبت آنکھ میں خاموش سلگی چپ اگر ہے تو..
محبت ہر صدا کی خامشی سی بھی ابھرتی ہے..
محبت خود میں مرتی اور جیتی زندگی سی ہے..
محبت کیف میں سمٹی کبھی اک بندگی سی ہے..
محبت ہے آس کا آنچل..

 محبت احساس میں صندل ..
محبت ہی تو تپتی راہ میں کندن بناتی ہے..
محبت ہے عطا پر ہاں محبت آزماتی ہے..
اگر یہ آزماتی ہے اور سچ کو تم وفا کر دو
تو یہی وہ ساتھ ہے جاناں جو ہر دم نبھاتی ہے..

حیا ایشم

Thursday, 31 March 2016

وہ کہتی ہے سنو جاناں محبت موم کا گھر ہے

وہ کہتی ہے سنو جاناں محبت موم کا گھر ہے
تپش اک بد گمانی کی کہیں پگھلا نہ دے اس کو
میں کہتا ہوں کہ جس دل میں ذرا بھی بدگمانی ہو
وہاں کچھ اور ہو تو ہو محبت ہو نہیں سکتی
وہ کہتی ہے سدا ایسے ہی کیا تم مجھ کو چاہو گے
کہ میں اس میں کمی بالکل گوارا کر نہیں سکتی
میں کہتا ہوں محبت کیا ہے یہ تم نے سکھایا ے
مجھے تم سے محبت کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
وہ کہتی ہے جدائی سے بہت ڈرتا ہے میرا دل
کہ خود کو تم سے ہٹ کر دیکھنا ممکن نہیں ہے اب
میں کہتا ہوں کہ یہی خدشے بہت مجھ کو ستاتے ہیں
مگر سچ ہے محبت میں جدائی ساتھ چلتی ہے
وہ کہتی ہے بتاؤ کیا میرے بن جی سکوو گے تم
میری یادیں، میری آنکھیں، میری باتیں بھلا دو گے
میں کہتا ہوں کبھی اس بات پر سوچا نہیں میں نے
اگر اک پل کو بھی سوچوں تو سانسیں رکنے لگتی ہیں
وہ کہتی ہےتمہیں مجھ سے محبت اس قدر کیوں ہے
کہ میں اک عام سی لڑکی ہوں تمہیں کیوں خاص لگتی ہوں
میں کہتا ہوں کبھی خود کو میری آنکھوں سے تم دیکھو
میری دیوانگی کیوں ہے یہ خود ہی جان جاؤ گی
وہ کہتی ہے مجھے وارفتگی سے دیکھتے کیوں ہو
کہ میں خود کو بہت ہیی قیمتی محسوس کرتی ہوں
میں کہتا ہوں متاع جاں بہت انمول ہوتی ہے
تمہیں جب دیکھتا ہوں زندگی محسوس ہوتی ہے
وہ کہتی ہے بتاؤ نا کسے کھونے سے ڈرتے ہو
بتاؤ کون ہے وہ جسکو یہ موسم بلاتے ہیں
میں کہتا ہوں یہ میری شاعری ہے آئینہ دل کا
ذرا دیکھو بتاؤ کیا تمہیں اس میں نظر آیا
وہ کہتی ہے کہ آتش جی بہت باتیں بناتے ہو
مگر سچ ہے کہ یہ باتیں بہت ہی شاد رکھتی ہیں
میں کہتا ہوں یہ سب باتیں، فسانے اک بہانہ ہیں
کہ پل کچھ زندگانی کے تمہارے ساتھ کٹ جائیں
پھر اس کے بعد خاموشی کا اک دلکش رقص ہوتا ہے
نگاہیں بولتی ہیں اور یہ لب خاموش رہتے ہیں....

عاطف سعید

Tuesday, 29 March 2016

مرے ہمدم، مرے ساتھی

  •  

    مرے ہمدم، مرے ساتھی

    تمہیں تو یاد ہی ہو گا
    وہ دن کیا خاص تھا جب تم مرے جیون میں آئی تھیں
    مری بے رنگ دنیا کو
    تمہاری مسکراہٹ نے ہزاروں رنگ بخشے تھے
    اسے کیسے سجایا تھا 
    تمہیں تو یاد ہی ہو گا
    تمہیں میں نے بتایا تھا
    کہ میں خوابوں میں رہتا ہوں مگر تم اک حقیقت ہو
    محبت ہی محبت ہو
    پھر اس کے بعد جیون کے سبھی موسم، سبھی منظر تمہاری آنکھ سے دیکھے
    تمہارے ساتھ جو گذرے، وہی پل زندگی ٹھہرے
    تمہیں تو یاد ہی ہو گا، مجھے کب یاد رہتا تھا
    مجھے کیا کام کرنے ہیں
    مجھے کس کس سے ملنا ہے
    کہاں جانا ضروری ہے
    خفا کوئی ہے کیوں مجھ سے
    کسے جا کر منانا ہے
    مجھے کب یاد رہتا تھا
    مرا معمول تو تم تھیں
    تمہی سب یاد رکھتی تھیں
    میں اپنے دل کی سب باتیں فقط تم سے ہی کرتا تھا
    تمہاری بھی یہ عادت تھی
    تمہیں تو یاد ہی ہو گا، میں اکثر تم سے کہتا تھا
    ابھی اس زندگی کے ساتھ کتنے روگ لپٹے ہیں
    مجھے تم سے محبت کی ذرا فرصت نہیں ملتی
    ذرا وہ وقت آنے دو، ذرا فرصت ملے مجھ کو
    بٹھا کر سامنے تم کو، تمہیں جی بھر کے دیکھوں گا
    بتاؤں گا مجھے تم سے محبت سی محبت ہے
    مجھے اس دم ملی فرصت
    کہ جب یہ بات سننے کو نہیں تم سامنے میرے
    مری جاں تم وہاں پر ہو، 
    جہاں سے لوٹ کر واپس کبھی کوئی نہیں آتا
    تمہیں کیوں اتنی جلدی تھی؟
    مرا اقرار سن لیتیں، مرا اظہار سن لیتیں
    کہ اب فرصت ہی فرصت ہے
    کہ اب معمول میں میرے، فقط تم سے محبت ہے
    مگر یہ بھی حقیقت ہے
    کہ میں تاخیر سے پہنچا،
    تمہیں جانے کی جلدی تھی.

  • عاطفؔ سعید

سُنو جاناں

سُنو جاناں
محبت رُت میں لازم ھے
بہت عُجلت میں یا تاخیر سے وہ مرحلہ آئے
کوئی بے درد ھو جائے
محبت کی تمازت سے بہت بھرپُور سا لہجہ
اچانک سرد ھو جائے
گُلابی رُت کی چنچل اوڑھنی بھی زرد ھو جائے
تو ایسے موڑ پر ڈرنا نہیں، رُکنا نہیں، گھبرا نہیں جانا
غضب ڈھاتی ھوئی سفّاک موجوں سے
کسی بھی سُرخ طوفاں سے
بہت نازک سی، بے پتوار دل کی ناؤ کو اُس پل
ھمیں دوچار کرنا ھے
ھمارا عہد ھے خود سے
کسی قیمت پہ بھی ھم کو
سمندر پار کرنا ھے

Monday, 28 March 2016

تُجھے اس قدر ہیں شکایتیں


تُجھے اس قدر ہیں شکایتیں
 کبھی سُن لے میری حکایتیں۔
تُجھے گر نہ کوئی ملال ھو،
میں بھی ایک تُجھ سے گلہ کروں؟
نہیں اور کُچھ بھی جواب اب
میرے پاس تیرے سوال کا۔
تُو کرے گا کیسے یقیں میرا،
مُجھے تو بتا دے میں کیا کروں؟
یہ جو بھولنے کا سوال ھے،
میری جان یہ بھی کمال ھے۔
تُو نمازِ عشق ھے جانِ جاں،
تُجھے رات و دن میں ادا کروں۔
تیرا پیار تیری محبتیں،
میری زندگی کی عبادتیں۔
جو ھو جسم و جاں میں رواں دواں،
اُسے کیسے خود سے جُدا کروں؟
تُو ھے دل میں، تُو ھی نظر میں ھے،
تُو ھے شام تُو ھی سحر میں ھے۔
جو نجات چاھوں حیات سے،
تُجھے بھولنے کی دعا کروں۔

وہ جگنو ہے ستارا کیوں کریں ہم

وہ جگنو ہے ستارا کیوں کریں ہم
نہیں ہے وہ ہمارا، کیوں کریں ہم

کسی کے ساتھ گھل مِل سے گئے ہو
بھلا اِس کو گوارا کیوں کریں ہم

جن آنکھوں میں سمندر ڈُوبتا ہے
اُن آنکھوں سے کنارہ کیوں کریں ہم

بہت سے کام ہیں کرنے کے صاحب
محبت پر گزارہ کیوں کریں ہم

جہاں سارا وفا نا آشنا ہے
فقط شکوہ تمہارا کیوں کریں ہم

اَنا نے باندھ رکھا ہے ہمیں بھی
تمہیں ہر پَل پکارا کیوں کریں ہم

بچھڑنے کی تمنّا ہے تو جاؤ
بچھڑنے کا اشارہ کیوں کریں ہم

مقابل آئینہ ہے، تم نہیں ہو
تو پھر لَٹ کو سنوارا کیوں کریں ہم

محبت ہو گئی، بس کہہ دیا ناں
خطا اب یہ دوبارہ کیوں کریں ہم

یہ دل کچھ رکھ لیا ہے پاس،تم پہ
فدا سارے کا سارا کیوں کریں ہم

فاخرہ بتولؔ

جو میری آنکھوں سے خواب دیکھو

جو میری آنکھوں سے خواب دیکھو
تو ایک شب بھی نا سو سکو گے
کے لاکھ چاہو نا ہنس سکو گے
ہزار چاہو نا رو سکو گے
کے خواب کیا ہیں عذاب ہیں یہ
میرے دکھوں کی کتاب ہیں یہ
رفاقتیں ان میں چھوٹی ہیں
محبتیں ان میں روٹھتی ہیں
اذیتیں ان میں پھوٹتی ہیں
انہی کے ڈر سے خزاں ہیں جذبے
انہی سے شاخیں سی ٹوٹتی ہیں
غموں کی بندش ہیں خواب میرے
دکھوں کی بارش ہیں خواب میرے
ابل رہا ہے دکھوں کا لاوا
رہیں آتَش ہیں خواب میرے
خیال سارے جھلس گئے ہیں
سلگتی خواہش ہیں خواب میرے
اکھڑتی سانسیں ہیں زندگی کی
لہو کی سازش ہیں خواب میرے
جو میری آنکھوں سے خواب دیکھو
تو ایک شب بھی نا سو سکو گے

Sunday, 27 March 2016

محبّت آزمانے دو

ابھی کچھ دن مجھے
میری محبّت آزمانے دو ..
مجھے خاموش رہنے دو ..
سنا ہے عشق سچا ہو تو
خاموشی لہو بن کر ..
رگوں میں ناچ اٹھتی ہے ..
ذرا اس کی رگوں میں
خاموشی کو جھوم جانے دو ..
ابھی کچھ دن مجھے
میری محبّت آزمانے دو ..
اسے میں کیوں بتاؤں
میں نے اس کو کتنا چاہا ہے .. .
بتایا جھوٹ جاتا ہے ..
کہ سچی بات کی خوشبو تو
خود محسوس ہوتی ہے ..
میری باتیں ..
میری سوچیں ..
اسے خود جان جانے دو ..
ابھی کچھ دن مجھے
میری محبّت آزمانے دو ..
اگر وہ عشق کے احساس کو
پہچان نہ پائے..!
مجھے بھی جان نہ پائے..
تو پھر ایسا کرو اے دل ..
خود ہی گمنام ہوجاؤ ..
مگر اس بےخبر کو زندگی بھر مسکرانے دو

محبت کس کو کہتے ہیں


  آؤ ہم تمکو بتائیں
محبت کس کو کہتے ہیں
کسی کو دیکھتے ہی دھڑکنوں میں سر بکھر جائیں
چمک آنکھوں کی بڑھ جائے
کسی کی یاد میں شام و سحر کا فرق مٹ جائے
سلگتے رات کٹ جائے
تصور سے کسی کے چاندنی راتیں مہک اٹھیں
کسی کا ایک جملہ قوت گویائی بن جائے
کسی کی اک نگاہ شوخ ہی بینائی بن جائے
کسی کے بن جب اپنا آپ اور سب کچھ ادھورا ہو
نہ سورج میں تپش باقی رہے نہ چاند پورا ہو
کسی کو دیکھ کے اکثر دھڑکنا بھول جائے دل
ٹھر جائے جو اس رخ پہ پلٹنا بھول جائے دل
کسی کی دید کی خاطر جبیں سجدے میں جھک جائے
نظر وہ آئے تو بے ساختہ کہہ دے زباں
" اے کاش .... مولا وقت رک جائے "
کوئی خوشبو ہو گل ہو یا کوئی رنگ حنا ہو تو
کڑکتی دھوپ میں کوئی ابر یا سایہ گھنا ہو تو
کسی کی آواز میں روح بھی محو دعا ہو تو
کسی کا ساتھ اپنی ابتداء اور انتہا ہو تو
کوئی خود درد ہو ، ہمدرد ہو اور خود دوا بھی ہو
کسی کا ہاتھ جب اپنے لیے دست شفا بھی ہو
پھر ایسے میں
یہ سب احساس ، ساری کیفیتیں اور سلسلے مل کر
انوکھی شے بناتے ہیں
جسے کہتے بھی ہیں
سنتے بھی ہیں
اور سب سناتے ہیں
محبت
جس کو کہتے ہیں

Friday, 25 March 2016

وفا......Wafa



میں سارے جذبے
تمام وعدے
دعائیں ساری
سبھی ارادے
ہر اک تمنا
ہر ایک خواہش
خواب اپنا
خمار سارے
محبتوں کے نصاب سارے
جو تم کو دے دوں
تو اتنا کیہ دو
وفا کرو گے

Monday, 21 March 2016

"محبت کر کے دیکهتے ہیں"

"

"محبت کر کے دیکهتے ہیں"
محبت پھر سے کر کے د یکھتے ہیں ہم
جہا ں چھو ڑا تھا تم نے
ر خصتی کے سرد مو سم میں
و ہیں چلتے ہیں پھر ا ک بار
ا و ر عہد و فا کو ہا تھ تھا مے یا د کر تے ہیں
چلو پھر سے
محبت کر کے د و نو ں د یکھتے ہیں ہم
تمہیں خو شبو پسند تھی
میں بہا ر و ں کے سبھی پھو لو ں کو
ا پنے سا تھ لا یا ہو ں
تمہیں با ر ش پسند تھی
با د لو ں کے سا تھ بر کھا لے کے آ یا ہو ں
تمہیں تا ر و ں بھر ی ر ا تو ں میں
د ل کا حا ل کہنے میں مزہ آ تا تھا
میں سا ر ے ستا ر ے
آ سما نو ں سے چُرا کے
بس تمہیں سُننے کو آ یا ہو ں
چلو پھر سے محبت کر کے
د و نو ں د یکھتے ہیں ہم
یہ مُمکن ھے کہ تم بھی
گز ر ے موسم کی طرح و ا پس پلٹ آ و
خز ا ں آ تی ہے
لیکن فصل گُل
پت جھڑ کے گھا و آ کے بھر تی ہے
یہی ہے را ز ہستی
ختم ہو تے ہی ا ند ھیر ے کے
نیا د ن
ا ک نر ا لے با نکپن سے پھر نکلتا ہے
تو کیا مُمکن نہیں
ہم مل سکیں دونوں
چلو ا ک با ر کو شش کر د یکھں ہم
محبت کر کے د یکھں
انور زاہدی

Thursday, 21 January 2016

چلو چھوڑو!


چلو چھوڑو!
محبت جھوٹ ہے۔
عہدِ وفا اِک شغَل ہے بے کار لوگوں کا
’’طَلَب ‘‘ سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
’’ خلش ‘‘ دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
’’ خُمارِ وصل ‘‘ تپتی دھوپ کے سینے پہ اُڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
’’ غبارِ ہجر ‘‘ صحرا میں سَرابوں سے اَٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو۔۔۔۔!
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تُم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے
رنگ بدلوگی!
چلو چھوڑو۔۔۔!
وہ سارے خواب کچّی بھُر بھُری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہارے اُنگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں میرا لیکن
تمہاری اُنگلیاں تو عادتاً یہ جُرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو۔۔۔!
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں
صدیوں سے
چلو چھوڑو۔۔۔!
میرا ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اِک نیا موسم اُترنے دو!
’’ میرے خوابوں کو مرنے دو ‘‘
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھّو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں سے کچّے رابطے توڑو
چلو چھوڑو۔۔۔!
محبت جھوٹ ہے۔۔!
عہدِ وفا اِک شَغل ہے بے کار لوگوں کا۔۔۔۔!!

Sunday, 1 November 2015

ﮐﺴﯽ ﺷﻤﻊ ﭘﮧ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ____ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺼﺪﺍً ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﺗﺎ

ﮐﺴﯽ ﺷﻤﻊ ﭘﮧ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ____ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺼﺪﺍً ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﺗﺎ ...
ﺍﺳﮯﺗﻮ ﻭﺻﻞ ﮐﮯﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺴﺮﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ،، ﺗُﻮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﺎ ...
ﺗﯿﺮﮮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﯽ ﻓﺼﺎﺣﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﻭﮦ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻨﺎ ...
ﮐﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﻗﻌﻮﮞ ﭘﺮ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻧﺎﻣﯽ ﮐﯽ ﺗﻤﻨّﺎ ﺑﮭﯽ ...
ﺍﺭﮮ ﺯﺍﮨﺪ،،، ﺩﮐﮭﺎﻭﮮ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﺮﺩﮦ ﺿﻤﯿﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺗﻌﺠﺐ ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﺍﺗﻨﺎ؟؟؟؟
ﯾﮧ ﺑﮯ ﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﺗﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﺳﻨﻮ ﻋﮩﺪِ ﺷﺒﺎﺏ ﺁﯾﺎ ﮬﮯ،،،،،،،، ﺍﺏ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ....
ﻧﺌﯽ ﮐﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻬﻨﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ....
ﺍُﺳﮯﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺩﻥ ﮈﮬﻠﻨﮯﮐﻮ ﮨﮯ ﺍﺏ ﮔﮭﺮﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺁﺋﮯ ....
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ،،،، ﻟﻤﺒﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﯽ ﻟﯿﮑﻦ،،، ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻮ ﮬﮯ ...
ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﯾﮩﺎﮞ ﺩﻝ ﺑِﮏ ﺭﮨﮯﮨﯿﮟ ﺩﺭﮨﻢ ﻭﺩﯾﻨﺎﺭ ﮐﮯﻋِﻮَﺽ ...
ﻧﻔﻊ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺧﺴﺎﺭﮦ ﯾﮧ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ...
ﻣﯿﺮﮮ ﺷﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮧ ﺭﻭﺩﯾﻨﺎ ...
ﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﯾﮧ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ....
ﺗﻢ ﺍﻧﺠﺎﻡِ ﻣﺤﺒﺖ ﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻋﺎﺭﻑ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮔﮯ ....
ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ،، ’ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﻫﮯ

تمہیں میں کِس طرح بھولوں

تمہیں میں کِس طرح بھولوں
بتاؤ کوئی نُسخہ ہے
مجھے تم یہ تو بتلاؤ کہ کیا تم کوئی منظر ہو
کہ جس کو دیکھ کر،میں اگلے پل میں بھول جاؤں گا
یا تم کوئی کہانی ہو
جسے پڑھ کر میں کچھ ہی دیر میں سب بھول جاؤں گا
یا تم کوئی کھلونا ہو
کہ جس کے ٹوٹ جانے پر میں اُس کو پھینک ڈالوں گا
یا تم کوئی تماشا ہو
جسے کچھ دیر رُک کر، دیکھ کر، میں اپنی راہ لوں گا
بتاؤ؟؟ اب کے چُپ کیوں ہو
کوئی نُسخہ تو ہو گا نا؟؟ کوئی تعویز بھی ہو گا
کوئی ترکیب تو ہو گی؟؟ کوئی تجویز ہی دے دو
ارے اب کچھ تو بتلاؤ اگر تم نے کہا ہے کہ "مجھے اب بھول جاؤ تم
مری جاں! بھول جاؤں گا ، مگر کیسے؟؟ یہ بتلاؤ
مرے محبوب....
بس کر دو ...
 ہنسی آتی ہے اب مجھ کو
تمہاری ایسی سوچوں پر،یہ اِن بچگانہ باتوں پر
سنو.....
ایسا نہیں ہوتا، تعلق ٹوٹ جانے پر کوئی بھولا نہیں کرتا
تمہیں جانا ہے ، تو جاؤ
میں رستے میں پڑا ہوں کیا
تمہیں اِک لفظ بولا ہو؟؟
کوئی شکوہ کیا میں نے؟؟
کوئی آنسو بہایا ہو؟؟
 کوئی دکھڑا سُنایا ہو؟؟
تمہیں رُکنے کا بولا ہو؟؟ کوئی تفصیل مانگی ہو؟؟
اگر ایسا نہیں کچھ بھی، تو پھر تم کیوں بضد ہو کہ تمہیں میں بھول ہی جاؤں؟؟
تمہیں جانا ہے نا؟؟؟... جاؤ
تمہاری یاد ہو،کچھ بھی ہو، تم آزاد ہو....جاؤ
تمہیں اِس سے نہیں مطلب....
 غلط فہمی تھی یا اُلفت
یہ میرا دردِ سر ہے، دردِ دِل ہے ، جو بھی ہے ، جاؤ
تمہارا کام تھا، تم نے محبت کی، بہت اچھے
یہ میرا کام ہے، میں یاد رکھوں یا بھُلا ڈالوں...
عجب باتیں ہیں دُنیا کی، عجب رسمیں ہیں اُلفت کی
محبت کر تو لیتے ہیں، نبھانا بھول جاتے ہیں
کسی دِن چھوڑ جائیں گے، بتانا بھول جاتے ہیں
مجھے اب کچھ نہیں سُننا، مجھے کچھ بھی نہ بتلاؤ
مجھے تم مشورے مت دو.....
کہ میں نے کیسے جینا ہے
اگر تم بھولنے کا گُر مجھے بتلا نہیں سکتے ،
تو پھر کچھ بھی نہ بتلاؤ
چلے جاؤ...
چلے جاؤ.....!
کبھی نہ لوٹ کر آنے کو تم.... جاؤ....... چلے جاؤ

Monday, 26 October 2015

دستخط



چلو تحریر کرتے ہیں
وفا کیسے نبھانی ہے
کریں پھر دستخط
اُس پر
پھرے جو قول سے اپنے
سزا اُس کو ملے رب سے
اُسے پھر سے محبت ہو
....

Sunday, 25 October 2015

ﻣُﺤﺒّﺖ




ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﮐَﮩﻨﺎ،
  ﻣُﺤﺒّﺖ ﮨَﻢ ﺑﮭﯽ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...!
ﻣَﮕﺮ ﻣَﻄﻠَﺐ ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﺎ،
ﺳَﻤﺠﮫ ﻟَﯿﻨﺎ ﻧَﮩﯿﮟ ﺁﺳﺎﻥ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﭘﺎ ﮐﮯ ﮐَﮭﻮ ﺩَﯾﻨﺎ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐَﮭﻮ ﮐﮯ ﭘﺎ ﻟَﯿﻨﺎ،
ﯾﮧ ﺍُﻥ ﻟَﻮﮔُﻮﮞ ﮐﮯ ﻗِﺼّﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﮯ ﺟَﻮ ﻣُﺠﺮِﻡ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻣِﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﮨَﻨﺴﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺑِﭽَﮭﮍ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺭَﻭﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
!.............! ﺳُﻨﻮ !.............!
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐَﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗَﻮ،
ﺑﮩﺖ ﺧﺎﻣَﻮﺵ ﮨَﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻗُﺮﺑَﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻓُﺮﻗَﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻧﮧ ﻭﮦ ﻓَﺮﯾﺎﺩ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻧﮧ ﻭﮦ ﺍَﺷﮑُﻮﮞ ﮐَﻮ ﭘِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﮯ ﮐِﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻟَﻔﻆ ﮐﺎ،
ﭼَﺮﭼﺎ ﻧَﮩﯿﮟ ﮐَﺮﺗﮯ،
ﻭﮦ ﻣَﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺍَﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨَﺖ ﮐَﻮ،
ﮐَﺒﮭﯽ ﺭُﺳﻮﺍ ﻧَﮩﯿﮟ ﮐَﺮﺗﮯ،
ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﮐَﮩﻨﺎ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮨَﻢ ﺑﮭﯽ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

مجھے تم سے محبت ہے

میں جب بھی اس سے کہتی ہوں
مجھے تم سے محبت ہے
وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ
بتاؤ نا! کہ کتنی ہے؟
میں بازو کھول کر کہتی ہوں کہ
زمیں سے آسماں تک ہے
فلک کی کہکشاں تک ہے
میرے دل سے تیرے دل تک
مکاں سے لا مکاں تک ہے
وہ کہتا ھے، کہ بس اتنی!!!
میں کہتی ھوں
یہ بہتی ھے
لہو کی تیز حدت میں
میرے جذبوں کی شدت میں
تیرے امکاں کی حسرت کی
میرے وجداں کی جدت میں
وہ کہتا ہے
نہیں کافی ابھی تک یہ
میں کہتی ہوں
ہوا کی سرسراہٹ ہے
تیرے قدموں کی آھٹ ہے
کسی شب کے کسی پل میں
مجسم کھنکھناہٹ ہے
وہ کہتا ہے
 یہ کیسے (محسوس) ہوتی ھے؟؟
میں کہتی ہوں
چمکتی دھوپ کی مانند
بلوریں سوت کی مانند
صبح کی شبنمی رت میں
لہکتی کوک کی مانند
وہ کہتا ھے
مجھے بہکاوے دیتی ہو؟
مجھے سچ سچ بتاؤ نا
مجے تم چاھتی بھی ہو
یا بس بہلاوے دیتی ہو؟
میں کہتی ہوں
مجھے تم سے محبت ہے
کہ جیسے پنچھی پر کھولے
ہوا کے دوش پر جھولے
کہ جیسے برف پگھلے اور
جیسے موتیا پھولے
وہ کہتا ھے
 مجھےالو بناتی ہو
مجھے اتنا کیوں چاہتی ھو؟
میں اس سے پوچھتی ہوں اب
تمھیں مجھ سے محبت ہے؟
بتاؤ نا کہ، کتنی ہے
وہ بازو کھول کے
مجھ سے لپٹ کے
جھوم جاتا ہے
میری آنکھوں کو کر کے بند
مجھ کو چوم جاتا ھے
دکھا کے مجھ کو وہ چٹکی
دھیرے سے مسکراتا ھے
میرے کانوں میں کہتا ھے
فقط اتنی...



محبت کیا ھے؟

محبت کیا ھے؟
محبت کیسی ھوتی ھے؟
سنتے آئے ھیں کہ
محبت
گلاب پہ شبنم کے جیسی ھوتی ھے.
محبت ٹوٹے دلوں پہ مرہم لگاتی ھے..
محبت غیروں کو اپنا بناتی ھے..
محبت چٹانوں کو بھی
موم کی طرح پگھلاتی ھے.
یہ صحراؤں کو گلستان بناتی ھے.
محبت پت جھڑ میں نویدِ بہار لاتی ھے..
محبت چکور کو حد پرواز سے گزرنے پر ُاُکساتی ھے ..
یہ پروانے کو شمع پہ مٹنا سکھاتی ھے..
محبت سادہ سی آنکھوں کو
حسین خوابوں سے سجاتی ھے...
محبت عام سے چہرے کو
اپنا نور بخشتی ھے...
"""لیکن"""
چلو دیکھیں ھم آج اسکا روپ دوسرا....
::::محبت.::::
گلاب سے چہرے سے شبنم
اک پل میں نچوڑ لیتی ھے.
یہ خوش باش سے دل کو
زخمِ ناسُور سا دیتی ھے.
محبت پل بھر میں اپنوں سے
کسی کو باغی کرتی ھے.
کبھی یہ موم سے دل کو
پتھر کا بناتی ھے.
یہ اپنی سے کرنے پہ اگر آجائے تو
بہارِ رُت میں بھی جھڑی ساون کی لگاتی ھے.
محبت دیوانگی میں اُڑتے چکور کو...
بے دم کر کے گراتی ھے..
محبت پروانے کی معصومیت کو.
ھر شمع پہ لُٹاتی ھے...
یہ سادہ آنکھوں کو حسین خوابوں سے سجا کر..
پھر ھر اک خواب کو نُوچ لیتی ھے..
محبت پُرنُور چہروں کے دیپ بُجھاتی ھے..
محبت ایسی بھی تو ھوتی ھے...
یہ کیوں دل کو ویران کرتی ھے...
کیونکر برباد کرتی ھے...
کسی کی یوں نھیں سنتی....
کیوں ھر بار اپنی سی کرتی ھے...

میں تم اور محبت


 میں تم اور محبت
عجیب لوگ ہیں یہ
ساتھ رہتے ہیں مگر
ساتھ میں رہتے ھى نہيں
کبھی میں ہوتا ہوں
تم اور محبت نہیں ہوتے
کبھی تم ہوتے ہو
میں اور محبت نہیں ہوتے
کبھی میں اور تم ہوتے ہیں
لیکن وہ محبت نہیں ہوتی
يہ ہونے نہ ہونے کی
مسلسل اک حیرانی ھے
میں نہیں ہوتا تو
کہاں ہوتا ہوں
تم نہیں ہوتے تو
کہاں ہوتے ہو
محبت نہیں ہوتی پھر
میں اور تم کیوں یہاں ہوتے ہیں
عجب معمہ ھے
حل نہيں ہوتا
بسں دو ھی رہتے ہیں
تیسرا نہیں ہو تا