affiliate marketing Famous Urdu Poetry: August 2023

Thursday 24 August 2023

Naraz dost ke leay by ammara majeed

اے ایم راع


سنو تم سے محبت میں کنارا نہیں ہوگا
کرو کوشش پر میرے بغیر گزاره نہیں ہوگا

دکھ درد میں تکلیف میں چاہت میں خوشی میں
جیسے بلایا میں نے تمہیں  کسی نے پکارا نہیں ہوگا


ابھی تو ساتھ سب ہی ہیں مصیبت جس گھڑی آئے
آزما لینا میرے علاوه کوئی تمہارا نہیں ہوگا 


جس قدر تم سے پیار ہے محبت ہے عشق ہے
اتنا تو کوئی کسی کو پیارا نہیں ہوگا

مشکل وقت میں اذیت میں تکلیف میں راع
خدا کے علاوه تمہا را کوئی سہارا نہیں ہوگا

راع 
میری ناراض دوست کے لیے 
 
 PA 💖💖

Bachpan by ayesha yaseen

نام: عائشہ یٰسین۔
عنوان: بچپن۔
شہر: دیپال پور ضلع اوکاڑہ۔


یادوں کا جنجال ہوتا ہے دِل میں،
بالکل پرانی حویلی کی مانند،
جو بظاہر سلامت دِل کو
اندر سے شکستہ کیے ہوئے ہے!
ایک طوفان ہوتا ہے،
جِس کو فراموش کرنا،
بہت کٹھن ہوتا ہے!
بچپن بھی اسی جنجال کی مانند،
دِل میں پیوست ہے،
جو بیت تو گیا ہے،
مگر اپنے اثرات کے نقش،
دِل پر ثبت کر گیا ہے!
مدھم پڑتی یادوں کا،
خار نما باتوں کا،
اذیت کی ساعتوں کا،
آہ بھری سانسوں کا،
لہو لہان قفس ہے!!
جس کا مسکن دل ہے!
اس قفس کی تیلیاں،
درد کے الاؤ میں،
سلگ رہیں ہیں..
دِل کو مجروح کر رہی ہیں!
مجھے آج بھی یاد ہیں!
وہ بچپن کی یادیں، 
وہ بارش کا پانی، 
کہ جِس پانی میں،
کاغذ کی کشتی بہانا،
معمول ہوتا تھا،
مُجھے آج بھی یاد ہے!
مٹی کے وہ کھلونے،
جِن کے ٹوٹ جانے پر،
ہم اُداس ہوتے تھے!
آج مٹی کے برتنوں کو،
اِک عرصہ بعد چھوا تو،
اِک پل کو تو میں،
بچپن کی وادی میں،
کہیں دور جا بسی...
کافی دیر سوچنے کے بعد،
اُن کو چکنا چور کیا!
مُجھے یاد ہے وہ کتاب،
کہ جِس میں مور کے پنکھ،
کو میں قید کرتی تھی،
آج وہ کتاب کھولی تو،
وہی مور کے پنکھ،
کتاب میں موجود تھے،
جو مُجھ کو دیکھ کر،
بظاہر مُسکرا رہے تھے...
اور اُداسی میرے لبوں پر،
مُسکراہٹ بن کر بکھر رہی تھی!
کتاب ٹُکڑوں میں تقسیم ہو رہی تھی!
پھر اِک بچپن کی ڈائری...
پر نظر جا ٹھہری،
کہ جِس میں اسکول کی،
ںے حساب یادیں دفن تھیں،
ورق پلٹتی گئی،
اُداسی بڑھتی گئی،
اِک ورق پر ہاتھ رُکا،
جِس میں ایک گلاب چھپا تھا،
جو بالکل ہی مُرجھا چُکا تھا،
پھر اِک بچپن کا قِصّہ یاد آیا،
وہ باغ کا حِصّہ یاد آیا،
اِک پَل میں زِندگی کو فراموش کر چلی!
اِک پل کو وقت میں پیچھے کو ہو چلی!
اسی ڈائری کو کئی گھنٹے،
ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی،
اور بچپن کے زمانے میں،
پیچھے کو جھانکتی رہی،
پھر ہوا یوں کہ!
میری اُداسی میرے لبوں پر،
تبسّم کی شکل اختیار کرتی گئی،
میں مُسکراتی گئی اور،
ڈائری ٹکروں میں بٹتی گئی!
پھر اِک نظر میری،
کینوس پر جا ٹھہری،
رنگ برنگے رنگوں کی،
ڈبیوں پر جا ٹھہری،
آج انہیں رنگوں کو برسوں بعد محسوس کیا!
آج انہیں رنگوں کو برسوں بعد مُسکراتا دیکھا!
بچپن کی یادوں سے...
بمشکل نکلنے کے بعد،
خود کی جانب جھانکا جب،
میری زِندگی کے تمام رنگ،
جو کِسی نے پھیکے کر دیے تھے،
میرے زِندگی پھیکی پڑ چُکی تھی،
پھر دوبارہ انہیں رنگوں کو اُٹھایا،
تو ان رنگوں سے آنے والی،
مُسکراہٹ کو میں سمجھ گئی تھی،
رنگ اب بھی مُسکرا رہے تھے،
وہ مُجھ پر مُسکرا رہے تھے،
میری اُداسی میں اضافہ ہوا،
اور مُسکراہٹ میرے لبوں پر 
شدت اختیار کرتی گئی،
اِک اِک کر کے رنگوں کی 
ڈبیاں خالی ہوتی گئیں!!
پھر اِک نظر میری،
اس گُڑیا پر جا ٹِکی،
جِس سے بچپن میں،
میں نے خوب کھیلا تھا،
اس گُڑیا کو آج اِک،
عرصہ بعد چھوا تھا،
وہ گُڑیا بھی مُسکرا رہی تھی،
اس کی ایک بازو ٹوٹ چُکی تھی،
مُجھ میں بھی ایک قہقہ گونجا،
پھر خیال آیا کہ!
زِندگی نے میرے ساتھ بھی،
خوب کھیل کھیلا تھا،
زِندگی کے سامنے،
میں بھی وہ گُڑیا تھی،
جو کھیلتے کھیلتے 
اکثر ٹوٹ جاتی ہے،
میری مُسکراہٹ جھوٹی تھی،
میں ریزہ ریزہ ٹوٹی تھی!!
آخر میں نے گُڑیا رکھ دی،
سب یادوں پر تیل کو چھڑکا،
پھر آنکھوں کو میں نے میچا،
آخر میں نے آگ لگا دی،
مُسکراہٹ لبوں پر جم رہی تھی،
میں ان چیزوں پر ہنس رہی تھی،
پھر اُٹھتے ہوئے آنکھوں کے،
کناروں کو میں نے صاف کیا،
بچپن کا قصہ تمام کیا!!

Thursday 17 August 2023

Roohi alqadas by Ayesha Yaseen

عنوان:

روحی القدس

عائشہ یٰسین

القدس!

مسکراہٹ

یعنی محبت

یعنی عشق

یعنی بلا کا عشق

القدس!

قبلہ اول!

ایک قصۂ الفت

یعنی سکونِ زندگی

مطلب دِل کی تسکین

القدس!

میں تمہیں

اتنا خوبصورت

اور انتہائی دِل کَش

لفظوں میں موتیوں کی مانند

پرونا چاہتی ہوں کہ

سب جو تم سے واقف بھی نہیں

وہ بھی تمہارے عشق میں مبتلا ہو جائیں

اے بیت المقدس!

میں تمہاری زمیں پر

ایک ایسا سجدہ کرنا چاہتی ہوں

کہ اس سجدے میں ہی

میری روح پرواز ہو جائے

اور جہاں کے لوگ

میری قسمت پر

رشک کریں

القدس!

ایک محبّت

کہ جس میں

ایک اذیّت مسلسل ہے

تیرے آزاد ہونے کی

تڑپ مسلسل ہے

القدس سے محبت

ایک عبادت

یعنی زندگی

القدس سے محبت

ایسا احساس ہے

جو صرف پاک دِل کا ہے

القدس!

مسکراہٹ

یعنی محبّت

یعنی عشق

یعنی بلا کا عشق

***************

Lafzon ka zindan by Ayesha Yaseen

عنوان:

 لفظوں کا زندان

عائشہ یٰسین

 

نا جانے کتنی حسرتیں

میرے دل کے کمرے میں

پوری ہونے کی چاہ میں

مر رہی ہیں،

نا جانے کتنی امیدیں

جو تم سے وابستہ ہیں

دل چور ہو جانے کے ڈر سے

ٹوٹ رہی ہیں،

نا جانے کتنے خواب

نا پورے ہو جانے کے خوف سے

ٹوٹ رہے ہیں،

نا جانے کتنی مسکراہٹیں

سب میں بکھیر کر

خود پر روز ہنستی ہوں،

نا جانے کتنی خواہشات

جو میرے دل میں ہیں

مجھ پر ہنستے ہنستے

ٹوٹتی جاتی ہیں،

نا جانے میرا دل

مجھے مارنے کی چاہ میں

طرح طرح کی ترکیبیں کیوں سوچتا ہے،

نا جانے کیوں دل پر

عجب سا اک بوجھ ہے۔۔

جو پل پل دل کو پتھر

بنائے رکھتا ہے،

نا جانے کیوں دل

عجب سی خلش سے دوچار ہے،

نا جانے کیوں ماتھے پر

شکن رہتی ہے،

نا جانے کیوں

خود کو خوش رکھنے کی کوشش میں

آنکھیں بھیگ جاتی ہیں،

نا جانے کیوں دل میرا

اذیت سے بھر گیا ہے،

نا جانے کیوں خود کو خود کی

خواہشیں ٹوٹ جانے پر

ہنسی آتی ہے،

خواب، خواہشیں، مسکراہٹ سب

دور بیٹھے تنہا مجھے دیکھ کر

قہقے لگا رہے ہیں!

روح اب مٹی میں جانے کی خواہش مانگتی ہے

اور خواہش مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔۔

***********

Chaey by Ayesha Yaseen

عنوان:

چائے

عائشہ یٰسین

 

چائے!

یعنی عشق...

اشرف المشروبات!

جیسے درد کا تعلّق دِل سے ہے،

ویسے ہی چائے کا تعلّق سکون سے ہے!

زِندگی کی ایک حسین دوستی،

جو غم میں چائے سے ہو چلتی ہے!

بظاہر تو یہ صِرف پینے کی شے ہے،

مگر اس کو سمجھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کِس طرح دِل میں سکون طاری کرتی ہے،

کِسی کی یاد میں،

کِسی غم میں مبتلا،

بیماری میں،

سردی میں،

شدید گرمی میں،

پریشانی میں،

جب سب چھوڑ جائیں ،

یعنی تنہائی میں،

چائے واحد وفادار ساتھی ہے

جو ہر وقت ہمارا ساتھ نبھاتی ہے۔

تو پھر میں کیوں نا چائے سے عشق کروں؟

جب کہ یہ میری پریشانی مِٹاتی ہے،

میرے درد کی شِدّت کو کم کرتی ہے،

صِرف چائے!

بہت سے کڑواہٹ بھرے الفاظ جب یاد کروں ،

ماضی کے غموں میں کھو جاؤں،

تو دِل و دماغ تک کڑواہٹ ہی گھل جاتی ہے،

یہی چائے ہوتی ہے تب

جو اس کڑواہٹ کو ایک ہی گھونٹ میں حلق میں اُتارتی ہے۔

چائے!

درد لکھنے ہوں،

تخیّل بننے ہوں،

ایک طرف قلم، کاغذ،

ایک طرف گہری سوچ،

کِتنے حسیں لگتے ہیں..

قلم، خیالات اور ایک کپ چائے۔۔!!

*************

Hayat e hasil by Huma Malik

آپ کے حاصل کو ہی

حیاتِ حاصل کہتے ہیں صاحب

آپ کی مسکراہٹ کو ہی

حیاتِ حاصل کہتے ہیں صاحب

آپ سے وفا کو ہی

حیاتِ بندگی کہتے ہیں صاحب

ہما ملک

********

Yaden by Huma Malik

تھک ہار کے جب ہم بستر پہ سونے جاتے ہیں

منظر سب دھندلاتے ہیں

آپ یاد بہت ہی آتے ہیں

بہاریں ِکھڑکی کے پٹ پہ کَھڑی رہ جاتی ہیں

خزائیں اکھیوں میں بس جاتی ہیں

باہر منظر بدلتے ہیں سارے

بہت حسیں تھے وہ پل جو تجھے سوچ کر گزارے

رات گزرتی ہے پہر در پہر

تیری یادیں اور جدائی زہر پر زہر

صبح اداکاری کرتے ہوئے مسکراتے ہیں

تیری یادوں اور محبت کے قصے تکیے پہ ہی چھوڑ جاتے ہیں

ہما ملک

*****************

Udasi by Huma Malik



Monday 14 August 2023

Azadi mubarak by ammara majeed

آزادی مبارک
اے ایم راع

جب بھوک مقدر ہو اپنا 
افلاس کا ڈیرا گھر پر ہو
جب غربت در پر پیرا دے
اور عظمت گھٹی ہو کمروں میں

جب قاتل تو آزاد بھرے
اور مقتول کے سر پر خاک رہے
جب فرض اپنا تو یا د نہ ہو
جب حق کھائیں تو غریبوں کا

جب کفر کی حالت وطن میں ہو
قانون ہو نافذ گوروں کا
جب خالق اپنا یاد نہ ہو
جب رازق اپنا یاد نہ ہو

جب جنت گھٹ گھٹ روتی ہو
اور غیرت آہیں بھرتی ہو
جب قوم کو بھوک کے لالے ہوں
اور اناج گھروں میں تالے ہوں

جہاں بنتِ حوا بے پرده ہو
اور وہ بھرے بازار پھرے
بال کھلے ہوں شانوں پہ
رکھ اپنی شرم اتار پھرے

تو ایسے حال میں
میں پوچھوں قوم سے
کس منہ سے کہوں تمہیں
آزادی مبارک

ایک تلخ حقیقت
از قلم  راع

Peena pilana by Muhammad Kumail Sagar

یہ پینے پلانے کی بات مت چھیڑو ساگر

جتنی پی کر تم ہوش میں نہیں رہتے اتنی ہم گلاس میں چھوڑ دیتے ہیں

 

محمد کمیل ساگر

***************

Qudrat khudai by Syeda Qandeel Fatima

قدرت خدائی

چاروں طرف ہے چھایا پرنور سا سماں یہ

ہر طرف ہیں تیری جلالت کے نشاں یہ

تیری قدرت کا ہی ہے یہ چار سو جلوہ

کیا پھول یہ کھلے ہیں کیا باغ یہ بچھے ہیں

چڑیاں چہچہا رہی ہیں تیرے ہی گیت گا رہی ہیں

تیری ہی نعمتوں سے فائیدہ اٹھا رہی ہیں

سورج کی کرن کرن یوں بڑھ رہی ہے آگے

ہے صبح کا یہ منظر سب جاندار جاگے

دن بڑھ رہا ہے آگی تیری رحمتوں کے ساتھ

پھر ہو رہا ہے رفتہ  رفتہ سے شام کا  آغاز

گھروں کو جا رہے ہیں پرندے اور یہ باز

مسجدوں کو چلے سب پڑھنے  نماز

آسماں پہ چھائی کالی کالی رات

ہوئی چاندنی سے دیھمی دھیمی بات

 

قالیں نما فلک پر پھیلے چاند اور تارے

یہ سب ہیں تیری قدرت کے اشارے

 

رائیٹر: سیدہ قندیل فاطمہ

***********************