affiliate marketing Famous Urdu Poetry: Bachpan by ayesha yaseen

Thursday 24 August 2023

Bachpan by ayesha yaseen

نام: عائشہ یٰسین۔
عنوان: بچپن۔
شہر: دیپال پور ضلع اوکاڑہ۔


یادوں کا جنجال ہوتا ہے دِل میں،
بالکل پرانی حویلی کی مانند،
جو بظاہر سلامت دِل کو
اندر سے شکستہ کیے ہوئے ہے!
ایک طوفان ہوتا ہے،
جِس کو فراموش کرنا،
بہت کٹھن ہوتا ہے!
بچپن بھی اسی جنجال کی مانند،
دِل میں پیوست ہے،
جو بیت تو گیا ہے،
مگر اپنے اثرات کے نقش،
دِل پر ثبت کر گیا ہے!
مدھم پڑتی یادوں کا،
خار نما باتوں کا،
اذیت کی ساعتوں کا،
آہ بھری سانسوں کا،
لہو لہان قفس ہے!!
جس کا مسکن دل ہے!
اس قفس کی تیلیاں،
درد کے الاؤ میں،
سلگ رہیں ہیں..
دِل کو مجروح کر رہی ہیں!
مجھے آج بھی یاد ہیں!
وہ بچپن کی یادیں، 
وہ بارش کا پانی، 
کہ جِس پانی میں،
کاغذ کی کشتی بہانا،
معمول ہوتا تھا،
مُجھے آج بھی یاد ہے!
مٹی کے وہ کھلونے،
جِن کے ٹوٹ جانے پر،
ہم اُداس ہوتے تھے!
آج مٹی کے برتنوں کو،
اِک عرصہ بعد چھوا تو،
اِک پل کو تو میں،
بچپن کی وادی میں،
کہیں دور جا بسی...
کافی دیر سوچنے کے بعد،
اُن کو چکنا چور کیا!
مُجھے یاد ہے وہ کتاب،
کہ جِس میں مور کے پنکھ،
کو میں قید کرتی تھی،
آج وہ کتاب کھولی تو،
وہی مور کے پنکھ،
کتاب میں موجود تھے،
جو مُجھ کو دیکھ کر،
بظاہر مُسکرا رہے تھے...
اور اُداسی میرے لبوں پر،
مُسکراہٹ بن کر بکھر رہی تھی!
کتاب ٹُکڑوں میں تقسیم ہو رہی تھی!
پھر اِک بچپن کی ڈائری...
پر نظر جا ٹھہری،
کہ جِس میں اسکول کی،
ںے حساب یادیں دفن تھیں،
ورق پلٹتی گئی،
اُداسی بڑھتی گئی،
اِک ورق پر ہاتھ رُکا،
جِس میں ایک گلاب چھپا تھا،
جو بالکل ہی مُرجھا چُکا تھا،
پھر اِک بچپن کا قِصّہ یاد آیا،
وہ باغ کا حِصّہ یاد آیا،
اِک پَل میں زِندگی کو فراموش کر چلی!
اِک پل کو وقت میں پیچھے کو ہو چلی!
اسی ڈائری کو کئی گھنٹے،
ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی،
اور بچپن کے زمانے میں،
پیچھے کو جھانکتی رہی،
پھر ہوا یوں کہ!
میری اُداسی میرے لبوں پر،
تبسّم کی شکل اختیار کرتی گئی،
میں مُسکراتی گئی اور،
ڈائری ٹکروں میں بٹتی گئی!
پھر اِک نظر میری،
کینوس پر جا ٹھہری،
رنگ برنگے رنگوں کی،
ڈبیوں پر جا ٹھہری،
آج انہیں رنگوں کو برسوں بعد محسوس کیا!
آج انہیں رنگوں کو برسوں بعد مُسکراتا دیکھا!
بچپن کی یادوں سے...
بمشکل نکلنے کے بعد،
خود کی جانب جھانکا جب،
میری زِندگی کے تمام رنگ،
جو کِسی نے پھیکے کر دیے تھے،
میرے زِندگی پھیکی پڑ چُکی تھی،
پھر دوبارہ انہیں رنگوں کو اُٹھایا،
تو ان رنگوں سے آنے والی،
مُسکراہٹ کو میں سمجھ گئی تھی،
رنگ اب بھی مُسکرا رہے تھے،
وہ مُجھ پر مُسکرا رہے تھے،
میری اُداسی میں اضافہ ہوا،
اور مُسکراہٹ میرے لبوں پر 
شدت اختیار کرتی گئی،
اِک اِک کر کے رنگوں کی 
ڈبیاں خالی ہوتی گئیں!!
پھر اِک نظر میری،
اس گُڑیا پر جا ٹِکی،
جِس سے بچپن میں،
میں نے خوب کھیلا تھا،
اس گُڑیا کو آج اِک،
عرصہ بعد چھوا تھا،
وہ گُڑیا بھی مُسکرا رہی تھی،
اس کی ایک بازو ٹوٹ چُکی تھی،
مُجھ میں بھی ایک قہقہ گونجا،
پھر خیال آیا کہ!
زِندگی نے میرے ساتھ بھی،
خوب کھیل کھیلا تھا،
زِندگی کے سامنے،
میں بھی وہ گُڑیا تھی،
جو کھیلتے کھیلتے 
اکثر ٹوٹ جاتی ہے،
میری مُسکراہٹ جھوٹی تھی،
میں ریزہ ریزہ ٹوٹی تھی!!
آخر میں نے گُڑیا رکھ دی،
سب یادوں پر تیل کو چھڑکا،
پھر آنکھوں کو میں نے میچا،
آخر میں نے آگ لگا دی،
مُسکراہٹ لبوں پر جم رہی تھی،
میں ان چیزوں پر ہنس رہی تھی،
پھر اُٹھتے ہوئے آنکھوں کے،
کناروں کو میں نے صاف کیا،
بچپن کا قصہ تمام کیا!!

5 comments:

  1. You are right my passionate poetess

    ReplyDelete
    Replies
    1. ماشاءاللہ بہت اچھی کاوش ہے ❤️❤️❤️

      Delete
  2. کمال است عائش

    ReplyDelete
  3. Bht Zbrdast👍👍👍

    ReplyDelete
  4. Kamal krdya yr Allah apk talent mai or b izafa kry

    ReplyDelete