affiliate marketing Famous Urdu Poetry: October 2015

Monday 26 October 2015

یاد

چناب ... تجھ کو یاد ہے.. ؟؟
کہ تیرے ساحلوں کی نرم ریت پر،
ہوئی تھیں مہرباں وہ انگلیاں ۔ ۔ ۔
انھی کی ایک پور نے جو رقص عشق میں کیا،
اک اسم پھر امر ہوا ۔ ۔ ۔
چناب ... تیری ریت پر ..
وہ اسم اب کہیں نہیں ۔۔۔
بتا ! وہ ہاتھ کیا ہوۓ.. ؟؟
وہ نقش سب ہوا ہوۓ
وہ خواب سب دھواں ہوۓ
نہیں نہیں، یہ جھوٹ ہے.. 
یہ خواب ہے عجیب سا
ابھی بھی کچھ نہیں گیا
میں چاہتا ہوں آنکھ جب کھلے تو
نرم ریت پر میرا ہی ایک نام ہو ...

ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ جاؤں

ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ جاؤں
 ﺗﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﺧﺸﮏ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ۔
ﺟﺐ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻓﺮﺍﻏﺖ پاؤ ﺗﻮ
 ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﮯ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭﺍﻕ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﯽ اﺱ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﻮ

 ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻧﺎ۔
ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻧﺎ
ﺟﮩﺎﮞ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﭘﮩﺎﮌ ﮨﻮﮞ۔
ﺟﮩﺎﮞ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ جگنوؤں ﮐﮯ ﻗﺎﻓﻠﮯ
ﺍﻭﺭ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﺘﻠﯿﺎﮞ ﻣﺤﻮِ ﺭﻗﺺ ﮨﻮﮞ۔
ﺟﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﻣﻨﮧ ﺯﻭﺭ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﭼﺸﻤﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ

 ﺳﻤﺎﻋﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺑﺨﺸﺘﯽ ﮨﻮ۔
ﺟﮩﺎﮞ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺑﺪﺻﻮﺭﺕ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮈﯾﺮﮮ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮ۔
ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮭﻨﮯ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ آنا
ﺟﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﭘﯿﮍ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺍﻧﺠﺎﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ دعاؤں ﮐﮯ
ﻟﺌَﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ۔
ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﺗﻮ

 مجھے ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺁﻧﺎ 
ﺟﺲ ﮐﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭ مر جائیں لیکن محبت ہمیشہ زندہ رﮨﮯ۔
ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ لینا
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﮕﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ

 ﺟﮩﺎﮞ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ بعد ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ
 ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﻮﮞ گا۔۔

تیرے بعد



وھی گردشیں وھی پیچ و خم________ تیرے بعد بھی
وھی حوصلے میرے دم بدم___ تیرے بعد بھی
تیرے ساتھ ھی تیری ھر جفا مجھے معتبر
تیرے سارے غم مجھے محترم______ تیرے بعد بھی
میرے ساتھ ھے میری ھر خوشی تیری منتظر
تیری منتظر میری چشم نم_______ تیرے بعد بھی
تو کسی کے قلب آرزو میں ڈھل گیا
میں نۂ ھو سکا کبھی خود میں زم___ تیرے بعد بعد بھی
میرے بعد کتنے ھی روپ تونے بدل لۓ
میں وھی ھوں اب بھی تیری قسم_____ تیرے بعد بھی

دستخط



چلو تحریر کرتے ہیں
وفا کیسے نبھانی ہے
کریں پھر دستخط
اُس پر
پھرے جو قول سے اپنے
سزا اُس کو ملے رب سے
اُسے پھر سے محبت ہو
....

سنو جاناں




سنو جاناں
تمہیں اک بات بتلاؤں؟
ہمیشہ یوں ہوا ہے کہ
جن کی سنگت میں رہ کر
سکون محسوس کرتی ہوں
جن کے ساتھ چل کر میں
خوشی محسوس کرتی ہوں
میں جن سے پیار کرتی ہوں
جن پہ اعتبار کرتی ہوں
وہ مجھ کو چھوڑ جاتے ہیں
میری امیدیں سب سپنے
میری امیدیں سب سپنے
وہ پل میں توڑ جاتے ہیں
سنو جاناں
اب تم بھی پاس رہتے ہو
تم بھی ساتھ چلتے ہو
تم سے بھی پیار کرتی ہوں
تم پہ اعتبار کرتی ہوں
مگر جاناں
ذرا سا روٹھ جاتے ہو تو
یقیں سا ہونے لگتا ہے
کہ تم بھی چھوڑ جاؤ گے
میری امیدیں سب سپنے
تم پل میں توڑ جاؤ گے
سنو جاناں
ہمیشہ یوں ہوا ہے نا
مگر اب کے سوچا ہے
روا یت توڑ دوں گی میں
کہ
تمہارے چھوڑنے سے پہلے ہی
تم کو چھوڑ دوں گی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

اے مَحبّت

اے مَحبّت 
تُو جنوں خیز اثر سے اپنے
میری ہستی کے بکھرتے ہوئے شِیرازے کو
مسخ ہونے سے بچانے کے لئے پاس نہ آ
تیرے ہم راہ کئی رنگ تو کچھ سنگ بھی ہیں
جن کی بارش سے لرزتے ہیں شکستہ آنگن
بے سکونی کا پتا دیتی ہے تیری قربت
اے مَحبّت !
یہ جنوں خیز اثر کی وَحشت
میری رگ رگ میں اتر آئی ہے
آنکھ چوکھٹ پہ جما بیٹھا ہے لمحہ کوئی
اور اس لمحے کی تعبیر میں رسوائی ہے
اے مَحبّت ! میں ترے درد کی وسعت لے کر
تیرے اَسرار کی چوکھٹ پہ چلی آئی ہوں
دل کی دہلیز پہ قبضہ ہے اسی لمحے کا
میں ترے دردسے رخصت کی تمنّائی ہوں

سب کچھ نام تمھارے


آج یہ سب کچھ نام تمھارے
ساحل
ریت
سمندر
لہریں
بستی
دوستی
صحرا
دریا
خوشبو
موسم
پھول
دریچے
بادل
سورج
چاند
ستارے
آج یہ سب کچھ نام تمھارے
خواب کی باتیں
یاد کے قصے
سوچ کے پہلو
نیند کے لمحے
درد کے آنسو
چین کے نغمے
اڑتے وقت کے بہتے دھارے
روح کی آہٹ
جسم کی جنبش
خون کی گردش
سانس کی لرزش
آنکھ کا پانی
چاہت کے یہ عنوان سارے
آج یہ سب کچھ نام تمھارے

کہا نہ کچھ عرض مدعا پر، وہ لے رہے دم کو مسکرا کر


کہا نہ کچھ عرض مدعا پر، وہ لے رہے دم کو مسکرا کر
سنا کئے حال چپکے چپکے، نظر اُٹھائی نہ سر اُٹھا کر
نہ طور دیکھے، نہ رنگ برتے غضب میں آیا ہوں دل لگا کر
وگر نہ دیتا ہے دل زمانہ یہ آزما کر، وہ آزما کر
تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رُلا رُلا کر، گھلا گھلا کر، جلا جلا کر، مٹا مٹا کر
تمہیں تو ہو جو کہ خواب میں ہو، تمہیں تو ہو جو خیال میں ہو
کہاں چلے آنکھ میں سما کر، کدھر کو جاتے ہو دل میں آکر
ستم کہ جو لذت آشنا ہوں، کرم سے بے لطف، بے مزا ہوں
جو تو وفا بھی کرے تو ظالم یہ ہو تقاضا کہ پھر جفا کر
شراب خانہ ہے یہ تو زاہد، طلسم خانہ نہیں جو ٹوٹے
کہ توبہ کر لی گئی ہے توبہ ابھی یہاں سے شکست پاکر
نگہ کو بیباکیاں سکھاؤ، حجاب شرم و حیا اُٹھاؤ
بھلا کے مارا تو خاک مارا، لگاؤ چوٹیں جتا جتا کر
نہ ہر بشر کا جمال ایسا، نہ ہر فرشتے کا حال ایسا
کچھ اور سے اور ہو گیا تو مری نظر میں سما سما کر
خدا کا ملنا بہت ہے آساں، بتوں کا ملنا ہے سخت مشکل
یقیں نہیں‌ گر کسی کو ہمدم تو کوئی لائے اُسے منا کر
الہٰی قاصد کی خیر گذرے کہ آج کوچہ سے فتنہ گر کے
صبا نکلتی ہے لڑکھڑا کر، نسیم چلتی ہے تھرتھرا کر
جناب! سلطانِ عشق وہ ہے کرے جو اے داغ اک اشارہ
فرشتے حاضر ہوں دست بستہ ادب سے گردن جھکا جھکا کر —

دِل میں اِک دشت ھے


دِل میں اِک دشت ھے اور آبلہ پائی یوں ھے
وہ میرے سامنے بیٹھا ھے، جدائی یوں ھے
ایک تلوار بھی ھے کاسہءِ اُمید کے ساتھ
اب کے اِس شہر میں اندازِ گدائی یوں ھے
دِل، جگر، آنکھ سبھی ایک ھوئے جاتے ھوئے
میرے احوال میں وہ دستِ حِنائی یوں ھے
بزمِ احباب بھی ھے رونقِ دُنیا بھی ھے
پر میرا دل نہیں لگتا، میرے بھائی ! یوں ھے
تیرے بارے میں کوئی مجھ کو بتاتا ہی نہیں
 وہ خُدا ایسا ھے اور اُس کی خُدائی یوں ھے


Sunday 25 October 2015

ﻣُﺤﺒّﺖ




ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﮐَﮩﻨﺎ،
  ﻣُﺤﺒّﺖ ﮨَﻢ ﺑﮭﯽ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...!
ﻣَﮕﺮ ﻣَﻄﻠَﺐ ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﺎ،
ﺳَﻤﺠﮫ ﻟَﯿﻨﺎ ﻧَﮩﯿﮟ ﺁﺳﺎﻥ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﭘﺎ ﮐﮯ ﮐَﮭﻮ ﺩَﯾﻨﺎ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐَﮭﻮ ﮐﮯ ﭘﺎ ﻟَﯿﻨﺎ،
ﯾﮧ ﺍُﻥ ﻟَﻮﮔُﻮﮞ ﮐﮯ ﻗِﺼّﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﮯ ﺟَﻮ ﻣُﺠﺮِﻡ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻣِﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﮨَﻨﺴﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺑِﭽَﮭﮍ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺭَﻭﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
!.............! ﺳُﻨﻮ !.............!
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐَﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗَﻮ،
ﺑﮩﺖ ﺧﺎﻣَﻮﺵ ﮨَﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻗُﺮﺑَﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻓُﺮﻗَﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻧﮧ ﻭﮦ ﻓَﺮﯾﺎﺩ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻧﮧ ﻭﮦ ﺍَﺷﮑُﻮﮞ ﮐَﻮ ﭘِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﮯ ﮐِﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻟَﻔﻆ ﮐﺎ،
ﭼَﺮﭼﺎ ﻧَﮩﯿﮟ ﮐَﺮﺗﮯ،
ﻭﮦ ﻣَﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺍَﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨَﺖ ﮐَﻮ،
ﮐَﺒﮭﯽ ﺭُﺳﻮﺍ ﻧَﮩﯿﮟ ﮐَﺮﺗﮯ،
ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﮐَﮩﻨﺎ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮨَﻢ ﺑﮭﯽ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

مجھے تم سے محبت ہے

میں جب بھی اس سے کہتی ہوں
مجھے تم سے محبت ہے
وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ
بتاؤ نا! کہ کتنی ہے؟
میں بازو کھول کر کہتی ہوں کہ
زمیں سے آسماں تک ہے
فلک کی کہکشاں تک ہے
میرے دل سے تیرے دل تک
مکاں سے لا مکاں تک ہے
وہ کہتا ھے، کہ بس اتنی!!!
میں کہتی ھوں
یہ بہتی ھے
لہو کی تیز حدت میں
میرے جذبوں کی شدت میں
تیرے امکاں کی حسرت کی
میرے وجداں کی جدت میں
وہ کہتا ہے
نہیں کافی ابھی تک یہ
میں کہتی ہوں
ہوا کی سرسراہٹ ہے
تیرے قدموں کی آھٹ ہے
کسی شب کے کسی پل میں
مجسم کھنکھناہٹ ہے
وہ کہتا ہے
 یہ کیسے (محسوس) ہوتی ھے؟؟
میں کہتی ہوں
چمکتی دھوپ کی مانند
بلوریں سوت کی مانند
صبح کی شبنمی رت میں
لہکتی کوک کی مانند
وہ کہتا ھے
مجھے بہکاوے دیتی ہو؟
مجھے سچ سچ بتاؤ نا
مجے تم چاھتی بھی ہو
یا بس بہلاوے دیتی ہو؟
میں کہتی ہوں
مجھے تم سے محبت ہے
کہ جیسے پنچھی پر کھولے
ہوا کے دوش پر جھولے
کہ جیسے برف پگھلے اور
جیسے موتیا پھولے
وہ کہتا ھے
 مجھےالو بناتی ہو
مجھے اتنا کیوں چاہتی ھو؟
میں اس سے پوچھتی ہوں اب
تمھیں مجھ سے محبت ہے؟
بتاؤ نا کہ، کتنی ہے
وہ بازو کھول کے
مجھ سے لپٹ کے
جھوم جاتا ہے
میری آنکھوں کو کر کے بند
مجھ کو چوم جاتا ھے
دکھا کے مجھ کو وہ چٹکی
دھیرے سے مسکراتا ھے
میرے کانوں میں کہتا ھے
فقط اتنی...



مُسافر ھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



مُسافر ھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 تیرے شہر مُحبت میں ذرا سی دیر ٹھہروں گا
چلا جاؤں گا اپنے راستے پر
زندگی کی رات ڈھلنے دے، بدن کو مات ھونے دے
رُکی ھے جو لبوں پر بات، ھونے دے
تیرا شہر محبت خُوب ھے لیکن اسیری کا بہانہ ھے
ازل کی اولیں ساعت، ابد کا آخری لمحہ
یہیں پر مرتکز سارا زمانہ ھے
مگر مُجھ کو ۔۔ دور آگے
لاجوردی روشنی سے پیار کرنا ھے
ترا شہرِ مُحبت تو میرا
۔۔۔۔۔۔۔۔
فصیلِ وقت کے ٹھہرے ھوئے اُس دائرے کو پار کرنا ھے
ابد کی سرحدوں سے
پہلا پڑاؤ ہے
جسے تو آخری منزل سمجھتی ھے
دِلوں کے راستوں پر وہ فقط اک نیم روشن
سا الاؤ ھے
بڑی لمبی مُسافت ھے، بڑا گہرا یہ گھاؤ ھے
ابد کے اُس طرف بھی راستے ھی راستے ھیں
فاصلوں کا ایک نادیدہ بہاؤ ھے
جِسے میں دیکھ سکتا ھوں
جِسے میں چھو بھی سکتا ھوں
مگر میں تو مُسافر ھوں
تیرے شہر مُحبت میں ذرا سی دیر ٹھہروں گا
چلا جاوْں گا اپنے رستے پر

محبت کیا ھے؟

محبت کیا ھے؟
محبت کیسی ھوتی ھے؟
سنتے آئے ھیں کہ
محبت
گلاب پہ شبنم کے جیسی ھوتی ھے.
محبت ٹوٹے دلوں پہ مرہم لگاتی ھے..
محبت غیروں کو اپنا بناتی ھے..
محبت چٹانوں کو بھی
موم کی طرح پگھلاتی ھے.
یہ صحراؤں کو گلستان بناتی ھے.
محبت پت جھڑ میں نویدِ بہار لاتی ھے..
محبت چکور کو حد پرواز سے گزرنے پر ُاُکساتی ھے ..
یہ پروانے کو شمع پہ مٹنا سکھاتی ھے..
محبت سادہ سی آنکھوں کو
حسین خوابوں سے سجاتی ھے...
محبت عام سے چہرے کو
اپنا نور بخشتی ھے...
"""لیکن"""
چلو دیکھیں ھم آج اسکا روپ دوسرا....
::::محبت.::::
گلاب سے چہرے سے شبنم
اک پل میں نچوڑ لیتی ھے.
یہ خوش باش سے دل کو
زخمِ ناسُور سا دیتی ھے.
محبت پل بھر میں اپنوں سے
کسی کو باغی کرتی ھے.
کبھی یہ موم سے دل کو
پتھر کا بناتی ھے.
یہ اپنی سے کرنے پہ اگر آجائے تو
بہارِ رُت میں بھی جھڑی ساون کی لگاتی ھے.
محبت دیوانگی میں اُڑتے چکور کو...
بے دم کر کے گراتی ھے..
محبت پروانے کی معصومیت کو.
ھر شمع پہ لُٹاتی ھے...
یہ سادہ آنکھوں کو حسین خوابوں سے سجا کر..
پھر ھر اک خواب کو نُوچ لیتی ھے..
محبت پُرنُور چہروں کے دیپ بُجھاتی ھے..
محبت ایسی بھی تو ھوتی ھے...
یہ کیوں دل کو ویران کرتی ھے...
کیونکر برباد کرتی ھے...
کسی کی یوں نھیں سنتی....
کیوں ھر بار اپنی سی کرتی ھے...

میں تم اور محبت


 میں تم اور محبت
عجیب لوگ ہیں یہ
ساتھ رہتے ہیں مگر
ساتھ میں رہتے ھى نہيں
کبھی میں ہوتا ہوں
تم اور محبت نہیں ہوتے
کبھی تم ہوتے ہو
میں اور محبت نہیں ہوتے
کبھی میں اور تم ہوتے ہیں
لیکن وہ محبت نہیں ہوتی
يہ ہونے نہ ہونے کی
مسلسل اک حیرانی ھے
میں نہیں ہوتا تو
کہاں ہوتا ہوں
تم نہیں ہوتے تو
کہاں ہوتے ہو
محبت نہیں ہوتی پھر
میں اور تم کیوں یہاں ہوتے ہیں
عجب معمہ ھے
حل نہيں ہوتا
بسں دو ھی رہتے ہیں
تیسرا نہیں ہو تا

ضد

ہی گر ضد تمہاری ہے
چلو ہم بھول جاتے ہیں
سبھی وعدے، سبھی قسمیں
محبت کی سبھی رسمیں
نہیں منظور جو تم کو
کریں رنجور جو تم کو
تمہاری شادمانی ہی، عزیز از جان ہے جب تو
تمہیں پھر ٹوکنا کیسا؟
زیاں، سود کی بابت، بھلا پھر سوچنا کیسا
چلو ہم بھول جاتے ہیں
محبت کی ریاضت میں
وفاؤں کی مسافت میں
قدم کس کے کہاں بہکے، ہوئی کس سے کہاں لرزش
بسا دی جس نے اک پل میں، ہماری آنکھوں میں بارش
کہ جس کی تیز بوندوں سے
کسی تیزاب کی صورت
نشانِ منزلِ دل ہی، جلا ڈالا مٹا ڈالا
مگر جاناں
کہاں آسان ہوتا ہےِ؟
جگر کا خون اشکوں میں، بدلنا اور بہا دینا
خس و خاشاک چن چن کر
گھروندہ اک بنانا اور۔۔۔۔۔اسی کو پھر جلا دینا
جواں سپنوں کی لاشوں کو
درونِ جاں چھپا کر ۔۔۔۔۔ مسکرا دینا
خزائیں پالنا خود میں، بہاریں بانٹے پھرنا
کہاں آسان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بہت ممکن ہے ہم بھی ہار ہی جائیں
جواں ہے ضبط جو اب تک
مقابل غم کے آئیں۔۔۔۔ اور ڈھئے جائیں
اور اس میں‌ بھی تعجب کیا۔۔۔۔؟
تمہارے لوٹ آنے کی۔۔۔۔۔ بچی ہو آس جوکوئی
نوائے بےزباں بن کر
سسک کر پھر سے اٹھے اور۔۔۔۔۔۔ تم تک بھی پہنچ جائے
سو تم سے یہ گزارش ہے
تب اک احسان تم کرنا
پلٹ کر دیکھنا یوں سرد نظروں سے
کہ جو بھی آس زندہ ہو۔۔۔
اسے یکسر مٹا دینا
ہمیں پتھر بنا دینا...!!

منظر



اسے جاتے ہوئے دیکھا ہی کیوں تھا
...... وہ آنکھ میں پتھرا گیا نا.

اسے کہنا



اسے کہنا
 محبت ایک صحرا ہے
اور صحرا میں کبھی بارش نہیں ہوتی
اور اگر باالفرض ہو بھی تو
فقط اک پل کو ہوتی ہے
اور اس کے بعد صدیاں خشک سالی میں گزرتی ہیں
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
اور اس میں وصل کی بارش کو صدیاں بیت جاتی ہیں
مگر پھر بھی نہیں ہوتی
اور اگر باالفرض ہو بھی تو
پھر اس کے بعد صدیوں کی جدائی مار دیتی ہے
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
اور صحرا کے سرابوں میں بھٹک جانے کا خدشہ سب کو رہتا ہے
کبھی پیاسے مسافر جب سرابوں میں بھٹک جائیں
انھیں رستہ نہیں ملتا
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
وفاؤں کے سرابوں سے اٹا صحرا
محبت کے مسافر گر
وفا کے ان سرابوں میں بھٹک جائیں
تو پھر وہ زندگی بھر ان سرابوں میں ہی رہتے ہیں
کبھی واپس نہیں آتے
..

الفاظ کے جھوٹے بندھن میں




الفاظ کے جھوٹے بندھن میں
اغراض کے گہرے پردوں میں
ہر شخص محبت کرتا ہے
حالانکہ محبت کچھ بھی نہیں
سب جھوٹے رشتے ناتے ہیں
سب دِل رکھنے کی باتیں ہیں
کب کون کسی کا ہوتا ہے
سب اصلی روپ چھُپاتے ہیں
احساس سے خالی لوگ یہاں
لفظوں کے تیر چلاتے ہیں
ایک بار نظر میں آکر وہ
پھر ساری عمر رُلاتے ہیں
یہ عشق و محبّت مہر و وفا
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
ہر شخص خود ہی کی مستی میں
بس اپنی خاطر جیتا ہے

سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے

عشق 
سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
 جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے
 ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن 
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے
 دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
 جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے
 یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
 میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے

Friday 16 October 2015

ہجر



کئی برسوں سے آنکھوں میں
مسلسل اک سمندر ہے
تمہیں بچھڑے ہوئے مدت ہوئی
لیکن یہ لگتا ہے
تمہارے ہجر کا پہلا ہی عشرہ کٹ نہیں پایا
وہ منظر چشمِ حیرت سے ابھی تک ہٹ نہیں پایا
کہ جب تم ـــــــــ ایک ساعت میں
جدائی سونپ کر مجھ کو
ہمیشہ کیلئے اُس دیس کو نکلے
جہاں جاتے ہوئے وعدے تو ہوتے ہیں
مگر ــــــــــ پورے نہیں ہوتے

Thursday 15 October 2015

اکھاں چھم چھم وسیاں

اکھاں چھم چھم وسیاں
 دلاں دیاں گلاں دلاں وچھ رہ گیئاں
نہ تُو سنیاں نہ دسیاں
اکھاں چھم چھم وسیاں
نکی جئی جندڑی نوں روگ کی اے لا لیا
چنا پردیسیاں نوں میت کیوں بنا لیا
سوچاں وچ ڈُبی ھوئی ونگ میں سجائیاں وے
کدی رون کدی ھسیاں، اکھاں چھم چھم وسیاں
کیھڑی گل ماہیا وے تُو مُکھ ساتھوں موڑیا
دل ساڈا غماں دے سمندراں چ روہڑیا
ایسے دل چندرے دے آکھے کاہنوں لگ کے
دکھاں وِچ میں ھسیاں، اکھاں چھم چھم وسیاں
تُو نہ جدوں پاس چنا کی اے ساڈے پاس وے
دن وی اداس ساڈے راتاں وی اداس وے
لُٹ گیا چین ساڈا رُس گئے ھاسے وے
خوشیاں نیں دور نسیاں، اکھا چھم چھم وسیا
ں

کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟


کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟
کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟
جِدھر سب کچھ لُٹا آئے
جِدھر آنکھیں گنوا آئے
کہا ، سیلاب جیسا تھا،
بہت چاہا کہ بچ نکلیں مگر سب کچھ بہا آئے
کہو ، وہ ہجر کیسا تھا ؟
کبھی چُھو کر اسے دیکھا
تو تُم نے کیا بھلا پایا
کہا ، بس آگ جیسا تھا ، اسے چُھو کر تو اپنی رُوح یہ تن من جلا آئے
کہو ، وہ وصل کیسا تھا ؟
تمہیں جب چُھو لیا اُس نے
تو کیا احساس جاگا تھا ؟
کہا ، اِک راستے جیسا ،جدھر سے بس گزرنا تھا ، مکاں لیکن بنا آئے
کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟
فلک سے جو اُتر آیا !
تمھاری آنکھ میں بسنے
کہا ، وہ خواب جیسا تھا ، نہیں تعبیر تھی اسکی ،
اسے اِک شب سُلا آئے
کہو ، وہ عشق کیسا تھا ؟
بِنا سوچے بِنا سمجھے ،
بِنا پرکھے کیا تُم نے
کہا ، تتلی کے رنگ جیسا ،
بہت کچا انوکھا سا ،
جبھی اس کو بُھلا آئے
کہو ، وہ نام کیسا تھا ؟
جِسے صحراؤں اور چنچل ،
ہواؤں پر لکھا تُم نے
کہا ، بس موسموں جیسا ،
ناجانے کس طرح کس پل کسی رو میں مِٹا آئے

Saturday 10 October 2015

کبھی تو دیکھنا

کبھی تو دیکھنا اور دیکھ کر مسکرا دینا کبھی نظریں چرا کر میری الجھن بڑھا دینا اچانک بے رخی اتنی دل بھر گیا ہو گا کہا بھی تھا کبھی ایسا ہوا تو بتا دینا تمہیں دکھ ہی یہ دیں گے چلو تم ایسا کر لینا میرے سب کارڈز اور تحفے دریا میں بہا دینا تم گر دیکھ لو تو شاید تم بھی نرم پڑ جاؤ تمہارے ذکر پر وہ میرا نظریں جھکا دینا دیکھو لے آیا آخر کس مقام پر ہم کو تمہارا معمولی باتوں کو بھی یوں ہوا دینا کبھی دیکھا ہے مچھلی کو کہ زندہ ہو بنا پانی؟؟ 
اگر ایسا ہوا ممکن مجھے بے شک بھلا دینا

ﺁ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺅﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﮯ ﻭﮦ

ﺁ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺅﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﮯ ﻭﮦ
ﻟﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺭﮬﺘﺎ ﮬﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ
ﺑﺴﺘﺎ ﮬﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﻭﮦ
ﮬﻨﺴﺘﺎ ﮬﮯ

کسک رہی گر ، گنوائیں نیندیں ، نہ چین پایا تو کیا کرو گے

کسک رہی گر ، گنوائیں نیندیں ، نہ چین پایا تو کیا کرو گے
گئی رتوں نے مری طرح سے تمہیں رلایا تو کیا کرو گے

یہ شان، عہدہ، یہ رتبہ ،درجہ ، ترقیوں کا یہ طنطنہ سا
کسی بھی لمحے نے کر دیا گر تمہیں پرایا تو کیا کرو گے

ابھی ہیں معقول عذر سارے، جواز بھی ہیں بجا تمہارے
کبھی جو مصروف ہو کے میں نے تمہیں بھلایا تو کیا کرو گے

چُراؤ نظریں ، چھڑاؤ دامن، بدل کے رستہ بڑھاؤ الجھن
تمہیں دعاؤں سے پھر بھی میں نے، خدا سے پایا ، تو کیا کرو گے

رحیم ہے وہ ، کریم ہے وہ ،وہی مسیحا ،وہی خدا ہے
اُسی نے سن لیں مر ی دعائیں ، جو رحم کھایا تو کیا کرو گے

وصال ُرت

وصال ُرت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش تھی
کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا
تمہارے ہاتھوں کالمس جب میری وفا کی ہتھیلوں پر حنا بنے گا
تو سوچ لو گی
رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں
ہمارے باغوں سے سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو نہ گزر پائے تو یہ نہ کہنا کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں
اگر کوئی شام یوں بھی آئے کے ہم تم لگے پرائے
تو جان لینا
کے شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں
تمہاری خوہش کی مٹھیاں بے دھانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا
کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے
تمھارے ہاتھوں کے لمس تازہ کی خوہشوں میں
بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے
مگر یہ خدشے ، یہ وسوسے تو تکلفاََ ہیں
ہم اپنے جذبوں کو منجمدرائیگانیوں کے سپرد کر کے
یہ سوچ لے گے
کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی
سفر کا آغاز کر چکا تھا

مجھے محبت سے ہو گئی ہے



 
 
کٹھن اندھیروں کی راہ گزر پہ
چراغِ صبح جلا جلا کے
قسم سے آنکھیں بھی تھک گئیں ہیں
تمہارے آنسو چھپا چھپا کے
کیا خبر تھی کہ اک چہرے سے
کتنے چہرے کشید ہوں گے
میں تھک گیا ہوں تمہارے چہروں کو
آئینے میں سجا سجا کے
ہم اتنے سادہ مزاج کب تھے
مگر سرابوں کی رہ گزر پہ
فریب دیتا رہا زمانہ
تمہاری صورت دکھا دکھا کے
عجب تناسب سے ذہن و دل میں
خیال تقسیم ہو رہے ہیں
مجھے محبت سے ہو گئی ہے

تمہیں محبت سکھا سکھا کے

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جس کو ہمسفر جانیں
کہ جو شریک درد ہو
وہی ہم سے بچھڑ جائے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؟
کہ آنکھیں جن خوابوں کو
حقیقت جان بیٹھی ہوں
وہ سب سپنے بکھر جائیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؟
کہ جس کے ساتھ پہروں ساعتیں
ہم نے گزاری ہوں
اسی سے ربط ٹوٹ جائے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؟
خزاؤں کے دیوانے کو
بہاروں میں بہاروں سے محبت ہونے والی ہو
اور موسم بدل جائے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؟
کہ جس کے نام کے آگے ہمارا نام آیا ہو
جسے محرم بنایا ہو
اسی کو اپنے ہاتھوں سے، کسی کو سونپ کر آئیں

میری داستان کا عروج تھا تیری نرم پلکوں کی چھاوں میں

میری داستان کا عروج تھا تیری نرم پلکوں کی چھاوں میں
مرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تری آنکھ کیسے جھپک گئی

ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ



ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍﺋﯿﮟ
ﮐﺐ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺑﺪﻟﺘﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﮨﮯ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﮐﺐ
ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﻟﺒﺎﺩﮦ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﺎ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺻﺤﺮﺍ ﮐﻮ
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﺋﮯ ﮐﮧ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ، ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ
ﮐﺐ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﮬﻮﭖ ﮨﮯ ﻏﻢ ﮐﯽ
ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﺧﺸﺘﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ،
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺻﮩﺮﺍ ﮐﯽ
ﻓﻀﺎﺋﯿﮟ ﮐﺐ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﯿﮟ،
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﯽ
ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮨﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﺳﭽﯽ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺐ
ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺎ ﮐﺮ ﻧﺒﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ
ﮐﮭﻮ ﮐﺮ ﻧﺒﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻧﺌﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﻓﺎﺋﯿﮟ ﮐﺐ
ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﯿﮟ

Saturday 3 October 2015

ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﺑﮭﺮﮮ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ
ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ
ﺟﺴﮯ ﺑﺲ ﯾﮧ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﮭﯽ
ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﺮﻡ ﺣﺮﻓﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻼﺣﺖ
ﺗﯿﺮﮮ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﻟﮯ
ﺍﺳﮯ ﺑﺲ ﯾﮧ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﮭﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﯽ ﺣﺴﺮﺕ ﺗﮭﯽ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ۔۔۔ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺗﻨﮩﺎ ﮨﻮ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﺑﮭﺮﮮ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ
ﺟﺴﮯ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﺎ ﺩﮐﮫ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ..!!!