affiliate marketing Famous Urdu Poetry: June 2016

Thursday 23 June 2016

حضرت جو کہتے ہیں کمال کہتے ہیں

 حضرت جو کہتے ہیں کمال کہتے ہیں

الجھے الجھے لفظوں میں سوال کہتے ہیں

میں نے پوچھا تھا دل کا درد ہے کیا؟؟؟؟؟

بولا حضرت نے کمال کرتے ھوں'

یہ بھی کوئ پوچھنے کی بات بھلا

یہ عشق کا درد ہے عاشق سمجھے

جو سسکتا ہے راتوں رات مگر

عشق میں دے دیں کوئ جان بھی اگر

ھوتا نہیں دلبر پہ کوئ اثر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں رقیب غم ھوں تیرا مسترد نہیں کرنا

 میں رقیب غم ھوں تیرا مسترد نہیں کرنا

فکر خداداد کی حرمت کو تنگ نہیں کرنا

میں وہ چراغ ھوں جسکا دھواں دھواں محرم

مجھے بجھا دوں مگر شام نم نہیں کرنا

مجھے تو وصل کی شدت پہ خوف آتا ہے

میں وہ جمال ھوں جس کو قلم نہیں کرنا

ملاپ دل ھوں اگر تو دیوار عشق کیا ہے

میں وہ ادا ھوں جس کو قضا نہیں کرنا

شاعرہ  رفعت کومل

Wednesday 22 June 2016

Main Tujhe Chahta Nahi Lekin,

Main Tujhe Chahta Nahi Lekin,

Phir Bhi Jab Paas Tum Nahi Hoti,

Khudko Kitna Udaas Paata Hoon,

Gumse Apne Hawas Pata Hoon,

Jaane Kya Dhun Samayi Rehti Hai,

Ek Khamoshi Si Chhayi Rehti Hai,

Dilse Bhi Guftagu Nahi Hoti,

Phir Bhi Jab Paas Tu Nahi Hoti,


Main Tujhe Chahta Nahi Lekin,

Phir Bhi Shab Ki Taveel Khalwat Mein,

Tere Aukat Sochta Hoon Main,

Teri Har Baat Sochta Hoon Main,

Kaunse Phool Tujhko Bhaate Hai,

Rang Kya Kya Pasand Aate Hai Tujhe,

Kho Sa Jata Hoon Teri Jannat Mein,

Phir Bhi Shab Ki Taveel Khalwat Mein,


Main Tujhe Chahta Nahi Lekin,

Phir Bhi Ehsaas Se Nijaat Nahi,

Sochta Hoon To Ranj Hota Hai,

Jaise Dilko Koi Dabota Hai,

Jisko Is Darja Chahta Hoon Main,

Jisko Itna Sarahta Hoon Main,

Usmein Teri Si Koi Baat Nahi,

Phir Bhi Ehsaas Se Nijaat Nahi...

عکس


دیده و دل میں , تیرے عکس کی تشکیل سے ھم

دُھول سے پُھول ھُوئے ، رنگ سے تصویر ھُوئے

 

احمد فرّاز

Tuesday 21 June 2016

کوئی موسم تو ایسا ہو

 

کوئی موسم تو ایسا ہو

کہ جب بچھڑے ہوؤں کی یاد کے جگنو

چمک کھو دیں ۔۔۔

کسی کے ہجر میں رونے سے پہلے ہی

میری آنکھیں ۔۔۔ کبھی سو دیں ۔۔۔

کوئی موسم تو ایسا ہو کہ جب سب پھول الفت کے

کسی اَنمٹ محبّت کے

میرے دل میں کھلیں

پر

ان میں وہ خوشبو نہ ہو باقی

“وہ خوشبو ، جو تمہارے قُرب میں مِحسوس ہوتی تھی “

کوئی موسم تو ایسا ہو

کہ دل کے زخم بھر جائیں

اگر ایسا نہیں ہوتا

تو پھر کتنا ہی اچھا ہو کہ

ساری خواہشیں دل کی

وہ سارے خواب اور ارماں

یونہی گھُٹ گھُٹ کے مر جائں

مجھے آزاد کر جائیں ۔۔۔

کو ئی موسم تو ایسا ہو کہ وہ موسم

تمہاری یاد کا موسم نا ہو ۔۔

Tuesday 14 June 2016

بھلائیں گے اسے

بھلائیں گے اسے

لیکن 

 ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
ابھی رستے میں ہے وہ موج
کہ ساحل تک نہیں پہنچی
جو گیلی ریت کی چادر پہ بکھرے
اس کے قدموں کے نشاں
وارفتگی سے چوم کر معدوم کر ڈالے
ابھی پت جھڑ کا سایہ اس قدر گہرا نہیں اترا
کہ دل کی سوکھتی ٹہنی سے
اس کی آرزو کا آخری پتا بھی جھڑ جائے
ابھی تک میں نے اس احساس کی مٹھی نہیں کھولی
کہ جس میں قید کر رکھی ہے اس کے لمس کی حدت
ابھی دوری کی نشترکاریوں کے زخم بھرنے دو
زرا سا وقت کے مرہم کو اپنا کام کرنے دو
نواحِ جاں سے اس کے قرب کا احساس جانے دو
میرے کاندھے سے اس کے آنسوؤں کی باس جانے دو
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ 

 بھلائیں گے اسے
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday 11 June 2016

ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺍﺩﮬﺎﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﺫﺭﺍ


ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺍﺩﮬﺎﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﺫﺭﺍ

کچھ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ہیں ﻣﺠﮭﮯ

 

ﺍﯾﮏ ﺁﻧﺴﻮ ﮐﺎ ﻣﻮﻝ ﮐﯿﺎ ﻟﻮ ﮔﮯ؟ ...

ﺁﺝ ﺳﺎﺭﮮ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ہیں ﻣﺠﮭﮯ

ﺑﻮﻝ ﺗﺘﻠﯽ کے ﺩﺍﻡ ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯿﮟ؟ ...
ﺭﻧﮓ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ہیں ﻣﺠﮭﮯ


ﺳﺮﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﯿﭻ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﻏﻢ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ہیںﻣﺠﮭﮯ


ﺯﻧﺪﮔﯽ کے ﺟﻮﺍﺭ ﺑﮭﺎﭨﮯ ﺳﮯ
کچھ ﺷﺮﺍﺭﮮ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ہیں ﻣﺠﮭﮯ

 ...
ﻣﯿﮟ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺧﺮﯾﺪ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﺏ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ہیں ﻣﺠﮭﮯ


ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺧﺮﺍﺝ ﮐﺘﻨﺎ ہے
ﮔﻮﺷﻮﺍﺭﮮ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ہیں ﻣﺠﮭﮯ


ﻣﺠﮭﮯ ﮈﮔﻤﮕﺎﺗﯽ ہے ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻋﺎﻃﻒ
کچھ ﺳﮩﺎﺭﮮ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ہیں ﻣﺠﮭﮯ

اے نیل گگن

مت بول پیا کے لہجے میں (مکمل نظم)
-
اے شام
مجھے برباد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے شام
عجیب سی ویرانی
مرے سینے میں آباد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے شام
کئی سو صدیوں کے
قیدی بیچارے اشکوں کو
مری آنکھوں سے آزاد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں

اے وقت
تو ایسا کام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے وقت
پرائی دنیا میں
مرے ہر سُو ہجر کی شام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں

اے وقت
زمانہ ظالم ہے
تو بیچ ہر اک چوراہے کے
مرے پیا کو یوں بدنام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رات نگر ویران نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں

اے رات
سکوت ہے پہلے ہی
اس دل۔۔۔ زخموں کے دریا میں
اب اور اسے سنسان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں

اے رات
میں دکھ کا مارا ہوں
کوئی وصل وصال بشارت دے
یہ ہجر مرا ایمان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
کوئی نور کرن
کوئی دیپ جلا
مجھے پیا کی اپنی رس کی بھری
میٹھی دلدار آواز سنا
مرا یوں تاریک جہان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں

اے بادِ صبا
خاموش گزر جا باغوں سے
مت بول پیا کے لہجے میں
ہمیں خوف آتا ہے داغوں سے

اے نیل گگن
تری وسعت وصف سہی تیرا
میں پنچھی، بادل، سیّارہ، پورن ماشی
میں بچھڑے یار کا متلاشی
اے نیل گگن
ترے قریہ قریہ اڑنا مرا دیوانہ پن
مت بول پیا کے لہجے میں
اے کہکشاں
تری چمک دمک
مرے پیا کی لانبی پلکوں کی بس ایک جھلک
بس ایک جھلک مرے پیا کے نوری ماتھے کی
مرے دل کو کچھ کچھ ہو جاتا ہے فوراً ہی
مجھے تری صدا ہی کافی ہے
مت بول پیا کے لہجے میں
بے چین ہوا
مت چھُو مجھ کو
مرے زخم نہ کھلنے لگ جائیں
میں جن باتوں کو بھول چکا
اور چھوڑ چکا ہوں مدت سے
آآ کے نہ ملنے لگ جائیں
بے چین ہوا
مت بول پیا کے لہجے میں
مرے کان نہ جلنے لگ جائیں
مرے ہونٹ نہ سلنے لگ جائیں

بے چین ہوا
مت دیکھ مجھے
مت دیکھ مجھے کسی نابینا کی نظروں سے
مرے ہونے پر یوں ظلم نہ ڈھا
بے چین ہوا

بے چین ہوا
اُسے یاد نہ کر
اُسے دھیرے دھیرے یاد نہ کر
وہ یاد آیا
تو آنکھیں اپنی آئی پر آجائیں گی
پھر دریا کے دھاروں کی طرح
جانے کب تک نیر بہائیں گی
بے چین ہوا
نیندیں نہ اُڑا
مرے جیون جوگ کو جوگ سمجھ
بے چین ہوا مرا سوگ منا
مرے دل کے روگ کو روگ سمجھ
میں پہلے ہی بے کل ہوں بہت
پانی سے بھرا بادل ہوں بہت
اور رونے میں جل تھل ہوں بہت
بے چین ہوا
بے چین ہوا
مرے پاس نہ آ
مرا دل نہ جلا
مت بول پیا کے لہجے میں

بے چین ہوا
مت چھیڑ مجھے
مرے ساتھ عجیب فریب نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
میں شہر میں جتنا تنہا ہوں
اتنا ہی رہنے دے مجھ کو
مری غم کے سفر سے جان چھڑا
یہ سفر مری پازیب نہ کر
بے چین ہوا
مجھے چھینٹے مار نہ بارش کے
مجھے اتنا رمز شناس نہ کر
میں ہوں تو مجھ ہی کو رہنے دے
مری آس امید اُداس نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں

اے رُت مستانی
ظلم نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مری روح کا سارا بنجر پن
مری ویرانی
کہاں انجانی ہے پیا کی ہجر کہانی سے
میں کس کے دوارے جا بیٹھوں
میں کس سے پوچھوں اس کا پتہ
اے رُت مستانی
پیا بنا ہے ساری دنیا بیگانی
مت بول پیا کے لہجے میں
مرے جذبوں کو مہمیز نہ کر
احساس کو اور بھی تیز نہ کر
مرے غم کی فصلوں کے کارن
دِل کی مٹی زرخیز نہ کر
مرے پاس نشانی یہی تو ہے
آواز اُداس ہواؤں کی
مری لُوں لُوں نے ہے پہچانی
مت بول پیا کے لہجے میں
-
فرحت عباس شاہ

خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں

خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں
پھر کسی درد کی دیوار سے لگ کر رو لوں

 

تو سمندر ہے تو پھر اپنی سخاوت بھی دکھا
کیا ضروری ہے کہ میں پیاس کا دامن کھولوں

 

میں کہ اک صبر کا صحرا نظر آتا ہوں تجھے
تُو جو چاہے تو ترے واسطے دریا رو لوں

 

اور معیار رفاقت کے ہیں ایسا بھی نہیں
جو محبت سے ملے ساتھ اسی کے ہولوں

 

خود کو عمروں سے مقفل کئے بیٹھا ہوں فراز
وہ کبھی آئے تو خلوت کدۂ جاں کھولوں

Wednesday 1 June 2016

ﻣﺠﺖ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﮯ, ﻣﺎﻧﺘﺍ ﮨﻮﮞ،


ﻣﺠﺖ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﮯ, ﻣﺎﻧﺘﺍ ﮨﻮﮞ،
ﻣﮕﺮ ﮨﻤﺰﺍﺩ !! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ, ﺗﮭﮏ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ

 

ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﺠﺮ ﮐﺎﻧﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ،
ﻧﺎﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﻫﺎ ﮨﻮﮞ

 

ﻣﯿﺮﯼ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ،
ﻣﺤﺒﺖ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟﺩﮮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ

 

ﻣﯿﺮﮮ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﺍﮎ ﺷﻮﺭ ﺳﺎ ﮨﮯ،
ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﺎﮞﺗﻨﮩﺎ ﮐﮭﮍﺎ ﮨﻮﮞ

 

ﻣﺤﺒﺖ, ﮨﺠﺮ , ﻧﻔﺮﺕ, ﻣﻞ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ،
ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ

عُمر کا بھروسہ کیا، پَل کا ساتھ ہوجائے

عُمر کا بھروسہ کیا، پَل کا ساتھ ہوجائے 
ایک بار اکیلے میں، اُس سے بات ہوجائے 

دِل کی گُنگ سرشاری اُس کو جِیت لے، لیکن
عرضِ حال کرنے میں احتیاط ہوجائے

ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک اِنساں کے !
ساری زندگانی ہی، بے ثبات ہوجائے

یاد کرتا جائے دِل، اور کِھلتا جائے دِل
اوس کی طرح کوئی پات پات ہوجائے

سب چراغ گُل کرکے اُس کا ہاتھ تھاما تھا
کیا قصور اُس کا، جو بَن میں رات ہوجائے

ایک بار کھیلےتو، وہ مِری طرح اور پھر
جِیت لے وہ ہر بازی مجھ کو مات ہوجائے

رات ہو پڑاو کی پھر بھی جاگیے ورنہ !
آپ سوتے رہ جائیں، اور ہات ہوجائے

پروین شاکر

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا
کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اُس سے لپٹ کے رو لینا

اُس کے بعد بھی تم تنہا ہو، جیسے جنگل کا رستہ
جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ اُسی کے ہو لینا

کچھ تو ریت کی پیاس بجھائو جنم جنم سے پیاسی ہے
ساحل پر چلنے سے پہلے اپنے پائوں بھگو لینا

ہم نے دریا سے سیکھی ہے پانی کی پردہ داری
اوپر اوپر ہنستے رہنا، گہرائی میں رو لینا

روتے کیوں ہو دل والوں کی قسمت ایسی ہوتی ہے
ساری رات یوں ہی جاگو گے دن نکلے تو سو لینا


بشیر بدر

چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا​

چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا

تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا

خوف آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لے

جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا

ممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو

اب تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلا

تاریخ تمھاری بھی گواہی کبھی دیتی

نیزہ ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلا

پیروں میں زمیں، آسماں سر پر ہے ابھی تک

چادر نہیں بدلی، مرا بستر نہیں بدلا

کیسے ترے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک

دریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا

سلیم کوثر

جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا


جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا
خود کو کبھی خوابوں کے حوالے نہیں کرنا

اِس عمر میں خوش فہمیاں اچھی نہیں ہوتیں
اِس عمر کو وعدوں کے حوالے نہیں کرنا

تم اصل سے بچھڑا ہوا اک خواب ہو شاید
اس خواب کو یادوں کے حوالے نہیں کرنا

اب اپنے ٹھکانے ہی پہ رہتا نہیں کوئی
پیغام پرندوں کے حوالے نہیں کرنا

دنیا بھی تو پاتال سے باہر کا سفر ہے
منزل کبھی رستوں کے حوالے نہیں کرنا 

اب کے جو مسافت ہمیں درپیش ہے اس میں
کچھ بھی تو سرابوں کے حوالے نہیں کرنا

جس آگ سے روشن ہوا احساس کا آنگن
اس آگ کو اشکوں کے حوالے نہیں کرنا

دیکھا نہیں اس فقر نے کیا کر دیا تم کو
اس فقر کو شاہوں کے حوالے نہیں کرنا

اِس معرکۂ عشق میں جو حال ہو میرا
لیکن مجھے لوگوں کے حوالے نہیں کرنا

محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں

محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں

 
جو دل گلاب ہیں زخموں سے بھر نہ جائیں کہیں

ابھی تو وعدہ و پیماں اور یہ حال اپنا

 
وصال ہوتو خوشی سے ہی مر نہ جائیں کہیں

 

یہ رنگ چہرے کے اور خواب اپنی آنکھوں کے

 
ہوا چلے کوئی ایسی بکھر نہ جائیں کہیں

 

جھلک رہا ہے جن آنکھوں سے اب وجود مرا

 
یہ آنکھیں ہائے یہ آنکھیں مکر نہ جائیں کہیں

 

پکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی

 
برسنے والے یہ بادل گزر نہ جائیں کہیں

 

نڈھال اہلِ طرب ہیں کہ اہلِ گلشن کے

 
بجھے بجھے سے یہ چہرے سنور نہ جائیں کہیں

 

فضائے شہر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر

 
نکل کے گھر سے اب اہلِ نظر نہ جائیں کہیں