affiliate marketing Famous Urdu Poetry: Mulaqaten Poetry
Showing posts with label Mulaqaten Poetry. Show all posts
Showing posts with label Mulaqaten Poetry. Show all posts

Saturday, 19 March 2016

تیرا حُسن ہو۔۔۔۔ میرا عشق ہو۔۔۔

تیرا حُسن ہو۔۔۔۔
میرا عشق ہو۔۔۔
تو پھر حُسن و عشق کی بات ہو۔۔۔
کبھی میں ملوں کبھی تُو ملے ۔۔۔
کبھی ہم ملیں ملاقات ہو ۔۔۔
کبھی تُو چُپ کبھی میں ہوں چُپ ۔۔۔
کبھی دونوں ہم چُپ چاپ ہوں ۔
کبھی گُفتگو کبھی تذکرے ۔۔۔
کوئی ذکر ہو کوئی بات ہو ۔۔۔
کبھی وصل ہو تو دن کو ہو ۔۔۔
کبھی ہجر ہو تو وہ رات ہو ۔۔۔
کبھی میں تیرا کبھی تُو میری ۔۔۔
کبھی ایک دوجے کے ہم رہیں۔۔۔
کبھی ساتھ میں کبھی ساتھ تُو ۔۔۔
کبھی ایک دوجے کا ساتھ ہو ۔۔۔
کبھی صحبتیں کبھی رنجشیں ۔۔۔
کبھی دُوریاں کبھی قُربتیں ۔۔۔
کبھی اُلفتیں کبھی نفرتیں ۔۔۔
کبھی جیت ہو کبھی مات ہو ۔۔۔
کبھی پُھول ہو کبھی دُھول ہو ۔۔۔
کبھی یاد ہو کبھی بھول ہو ۔۔۔
نہ نشیب ہوں نہ فراز ہوں ۔۔۔
نہ ہی نچہ ہو نہ ہی جات ہو ۔۔۔
رہیں مُسکُراتے پیار میں ۔۔۔
کھلیں پھول بن کے بہار میں ۔۔۔
نہ زمیں کوئی نہ فلک کوئی ۔۔۔
نہ وجود ہو نہ ہی ذات ہو ۔۔۔
صرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرا حُسن ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا عشق ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری آنکھ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری ذات ہو ۔۔۔۔

Sunday, 1 November 2015

آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ



آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ

عمر گزری تجھے دیکھے ہوئے بہلائے ہوئے
یاد ہے؟
ہم تجھے دل مانتے تھے
اپنے سینے میں مچلتا ہوا ضدی بچہ
تیرے ہر ناز کو انگلی سے پکڑ کر اکثر
نت نئے خواب کے بازار میں لے آتے تھے
تیرے ہر نخرے کی فرمائش پر
ایک جیون کہ تمناؤں کی بینائی سے
ھم دیکھتے تھکتے ہی نہ تھے
سوچتے تھے ایک چھوٹا سا نيا گھر
نيا ماحول محبت کی فضا
ھم دونوں
اور کسی بات پر تکیوں سے لڑائی اپنی
پھر لڑائی میں کبھی ہنستے ہوئے رو پڑنا
اور کبھی روتے روتے ہنس پڑنا
اور تھک ہار کے گر پڑنے کا مصوم خوش بخش خیال
یاد ہے؟
ہم تجھے سکھ جانتے تھے
رات ہنس پڑتی تھی بےساخته درشن سے تیرے
دن تیری دوری سے رو پڑتا تھا
یاد ہے؟
ہم تجھے جاں کہتے تھے
تیری خاموشی سے ہم مرجاتے
تیری آواز سے جی اٹھتے تھے
تجھ کو چھو لینے سے اک زندگی
آ جاتی تھی شریانوں میں
تھام لینے سے کوئی شہر سا بس جاتا تھا ويرانوں میں
یاد ہے؟
ہم تجھے ملنے کے لیے وقت سے پہلے پہنچ جاتے تھے
اور ملاقات کے بعد ہم بہت دیر سے گھر آتے
تو کہتے کہ ہمیں کچھ نہ کہو ہم بہت دور سے گھر آئے ہیں
اس قدر دور سے آئے ہیں کہ شاید ہی کوئی آ پائے
یاد ہے؟
ہم تجھے بھگوان سمجھتے تھے مگر کفر سے ڈر جاتے تھے
تیرے چھن جانے کا ڈر ٹھیک سے رکھتا تھا مسلمان ہمیں
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
تیرے بھولے ھوئے رستوں پہ
لیے پھرتا ہے ایمان ہمیں
اور کہتا ہے کہ پہچان ہمیں
یاد ہے۔۔۔!
ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے۔۔۔!!
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
فرحت عباس شاہ

Monday, 4 May 2015

میں لوگوں سے ملاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں

میں لوگوں سے ملاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں 
میں باتیں بھول بھی جاؤں تو لہجے یاد رکھتا ہوں 

سر محفل نگاہیں مجھ پے جن لوگوں کی پڑتی ہیں 
نگاہوں کے حوالے سے وہ چہرے یاد رکھتا ہوں 

ذرا سا ہٹ کے چلتا ہوں زمانے کی روایت سے 
کے جن پے بوجھ میں ڈالو وہ کندھے یاد رکھتا ہوں