affiliate marketing Famous Urdu Poetry: Barg e gul by Aabi Ahmed

Tuesday 17 August 2021

Barg e gul by Aabi Ahmed

"برگ گل"

(عابی احمد)

"عورت دنیا کی خود غرض ترین مخلوق ہے".آنکھیں کھولتے ہی ہوش سنبھالتے ہی اسکے اردگرد ایک ہی جملے کی تکر آر تھی۔عورت ایسی ہےعورت ویسی ہے۔۔۔بلکہ عورت کو تو انسانیت کے درجے پہ ہی نہیں رکھا گیا تھا.اسکے گھر میں مردوں کی زباں پہ ہر دم یہی ذکر رہتا ،عورت ۔۔۔عورت ۔۔عورت۔۔

"میں اس عورت بد تمیز کا گلہ دبا دوں گی"...بو لنےکیلیے لفظوں کو جوڑنے والی عروہ نے تین سال کی عمر تک سنی با تو ں کے جو اب میں آخر کا ر کہہ ہی دیا۔کیا ہر وقت بابا اور بھا ئیو ں کو غصہ دلا تی رہتی ہے۔اسے اپنے کھلو نوں کی فکر نہیں تھی۔۔۔بابا کی پر یشانی لاحق تھی۔جن کے ما تھے پہ عورت نامی بلا نے شکنوں کا جال بن دیا تھا۔بابا اسے پیارنہں کرتے تھے ۔۔۔عورت کا رونا روتے تھے ۔عورت نے ان کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔۔۔بھا ئی بھی خفا خفا سے رہتے تھے۔

ایک دن وہ سکول سے روتی ہوئی گھر آئی تھی۔اما ں نے گھبرا کر اسے دیکھا ۔۔۔اس کے گا ل پہ پا نچ انگلیوں کا نشان تھاسرخ۔۔آگ جیسا۔۔۔

"بابا ٹیچر نے مارا"۔۔۔،چار سالہ عروہ نے ضیاء احمر کو دیکھ کر بتایا۔۔بابا پوچھتے یانہ پوچھتے ۔۔۔سنتے یا دھتکار دیتے۔۔عروہ انہیں سنا کر ہی خا مو ش ہو تی۔۔

"بابا مجھ سے تو ناراض نہیں ہیں ناں"وہ سو چتی عورت کا وہ خود کو ئی بندوبست کر ے گی"وہ ہر روز پکا ارادہ کر تی ۔۔"عقل سے پیدل ہو تم سب کی سب عورتیں"۔۔انہوں نے ایک پل کو عروہ کے گا ل پہ پڑے اس سرخ آگ جیسے نشا ن کو دیکھا۔۔

"لا کر میرےسا منے بیٹھا دیا منحوس عورت۔۔۔".وہ غصے کا اظہار کرتے اٹھ کر جا چکے تھے۔۔عروہ نے اماں کی گود میں چہرہ چھپا لیا۔۔

اس کا رزلٹ آیا ۔۔۔اس نے صوبے بھر  میں فر سٹ پوزیشن لی تھی۔اماں اور رجب کے سوا کو ئی بھی خوش نہیں تھا۔۔یہاں تک کے کسی نے نو ٹس ہی نہیں لیا اس با ت کا۔۔ایسا رجب لالہ نے کہا۔۔۔عروہ کو تو سب ہی اچھا لگ رہا تھا۔۔

ایک دن اسے پڑ ھاتےرجب  سے وہ استفسار کر رہی تھی۔۔

"رجب لالہ"اسے ہوم ورک کرواتے رجب نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔اس کے لہجے میں کچھ تو محتلف تھا۔۔۔

"بتاو۔۔۔کیا ہوا"رجب نے محبت سے اسے اٹھا کر گود میں بیٹھا لیا۔اماں کے بعد اس سے واحد محبت کرنے والی ہستی۔۔۔اور اسے انسان سمجھنے والاواحد ۔۔۔گھر کا مرد۔۔۔

"یہ عورت کون ہے" وہ رازداری سے گویا ہوئی۔۔

رجب ہلکا سا مسکرایا۔۔

"عورت۔۔۔"رجب لالہ اس کے بچگانا سوال پہ مسکراے۔۔۔"اماں ہیں۔۔۔۔۔۔"

وہ ایکدم لالہ کی بات کاٹ گئی۔۔

"مجھے جب بھی ملی اس کا گلہ دبا دوں گی،بابا کاناک میں دم۔۔۔۔۔"

"تم ہو ۔۔۔عروہ عورت ۔۔۔تمہاری دوست حبہ ہے عورت۔۔۔"

وہ بولتے بولتے رکی۔۔زرد چہرے سے لالہ کو دیکھا۔۔۔

رجب لالہ نے دیکھا۔۔۔عروہ کا تنفس تیز تر ہو گیا تھا۔۔۔

"میں عورت ہوں"وہ بڑ بڑا رہی تھی

رجب نے سوچا اس نے بتا کر غلطی کر دی تھی۔۔جس غلطی کی کوئی تلافی نہیں تھی۔

ہر وقت عورت کو کوسنے والی۔۔۔اپنے بابا کیلیے عورت کو مار دینے والی ۔۔۔۔"خود عورت تھی"

اس کے باپ کی نفرت کی وجہ وہ خود تھی۔۔

بابا کا درد دور کرنے والی ،

انکے لیےازیت ناک تکلیف  تھی

بابا کو انکا غرور لوٹانے والی،

خود انکا زوال تھی۔

بابا کو انکی مسکراہٹ لوٹا نے والی ،

ان کا سب سے بڑا رونا  تھی۔

"وہ ایک عورت تھی"

بابا کے مطابق ۔۔

کم عقل۔۔۔۔

خودغرض۔۔۔۔

بے وقوف۔۔۔

رجب نے دیکھا ۔۔سات سالہ عروہ ریشہ زدہ مر یض کی طرح کانپ رہی تھی۔۔۔اسکی آنکھیں ساکت تھیں۔۔

سر خودبخودجھک گیا۔۔شرم سے۔۔۔۔

وہ بچی تھی اسے لگتا بابا پیار نہیں کرتے۔۔

وہ اسی پل بڑی ہو گئی۔۔۔اسے پتہ چلا بابا صرف نفرت کر سکتے ہیں۔۔

اس سے۔۔۔

اماں سے۔۔

پھوپھو سے۔۔۔

ہر عورت سے۔۔۔

 کیو نکہ وہ خود غرض تھیں۔۔۔

  خواب لوٹنے والیاں ۔۔۔۔

سب کچھ چھنینے والیاں۔۔۔۔

وہ چار بھائیوں کے بعد پیدا ہونے والی ۔۔۔بچی نہیں عورت تھی۔

مرد کی جوتی سے بھی کم تر سمجی جانےوالی عورت۔۔

وہ سر جھکائے اپنا بیگ تھامے اٹھ کھڑی ہوئی۔اس نے رجب کو دیکھنےکی غلطی نہیں کی تھی۔۔۔

اس کے چہرے سے پانچ منٹ پہلے والی معصومیت غائب تھی۔۔معصومیت لمحوں میں شرمساری میں بدل گئی۔۔

وقت گزرتا گیا۔۔۔رجب لالہ جو اس کیلیے گھنے سائےکی طرح تھے۔۔۔وہ اس سائے سے بھی دور ہوتی گئی۔۔۔اسے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ عورت ہے ۔۔۔وہ اس جتن میں رہتی تھی کہ اس کی محبت میں کہی کوئی کمی نہ رہ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے معلوم ہو ہی گیا بابا کیو ں عورت سے اتنی نفرت کرتے تھے؟

وہی روایتی کہانی۔۔۔۔

جہاں وہ گھر کے سب سے بڑے بیٹے کے عہدے پہ فائض تھے۔۔تین بہنوں ،ایک چھوٹے بھائی اور ماں باپ کی زمہ داری تھی ان پہ۔۔۔باپ کا اپنا بزنس تھا۔۔وہ باہر جاکر پڑھنا چاہتے تھے۔۔زندگی خوشحال گزر رہی تھی۔۔کہ ایک دن باپ کو ہارٹ اٹیک نےبستر پہ ڈال دیا۔۔اور انہیں اس وقت خواب۔۔خواہشیں۔۔کسی سے کئے وعدے ۔۔سب سے دستبردار ہونا پڑا۔۔جب ان کے امریکہ جانے میں فقط دو دن رہ چکے تھے۔۔۔وہ ما ں کی التجاؤں اور بہنوں کو روتے دیکھ کر رک گئے تھے۔صرف یہی نہیں دوسال بعد جب دو بہنوں کی شادی وہ کر چکے تھے اور باپ کی حالت پہلے سے بہت بہتر تھی ۔۔۔تب وہ اپنے بارے میں  سوچنے لگے تھے۔۔ایک دفعہ پھر انہیں اماں نے زبردستی اپنی بھانجی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ دیا۔دوسری طرف ضیاءاحمراپنے دوست کی بہن سے شادی کے شدید خواہش مند تھے۔زیست میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب انہیں ہر بااپنےگھر کی عورتوں کی وجہ سے قربانی دینی پڑی۔۔اپنے خوابوں کو قتل کرنا پڑا۔۔کبھی بہنوں کے گھروں کے مسائل ،کبھی اماں کی التجائیں۔۔سب سے کاری وار ان کی وہ بیوی جیسے ان کی ماں۔۔۔ان کی محبت کی جگہ لا کر بیٹھا چکی تھی۔۔۔یوں وہ عورتوں سے شدید بدظن ہو چکے تھے۔۔اس سب میں اگر کوئی سب سے زیادہ ان کی نفرت کا شکار ہوا تھا ۔۔۔تو وہ "عروہ ضیاء احمر"تھی۔۔۔۔ان کی اپنی بیٹی۔۔۔۔جسیے انہوں نے پہلے دن ہی عورت کہا تھا۔۔ناکہ اپنی بیٹی۔۔۔۔۔۔۔

"میں اس کی آواز نہیں سننا چاہتا تھا۔۔میں اسکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔وہ آواز جو مجھے سب سے بیانک لگتی تھی۔۔۔

وہی آواز میں سننا چاہتا تھا۔۔۔

جو شکل مجھے دنیا میں سب سے بری لگتی تھی ۔۔۔

وہی آواز سننے کیلیے۔۔۔اسے دیکھنے کیلیے تڑپ رہا تھا۔۔۔

مگر آج وہ مجھ سے دور تھی۔۔۔

میری کسی پکار کا اسے کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔وہ جو میری دھتکار پہ بھی مسکرا کر میرے پاس بیٹھی رہتی تھی۔۔۔میں نے سب کو  ان کے حصے کی سزا دے ڈالی۔۔۔میری نفرت سہنے کیلیے وہ اکیلی رہ گئی تھی۔۔۔

اسکی ماں کو میں نے ہمشہ کوسا۔۔۔

اپنی بہوؤں کو جوتے کی نوک پہ رکھا

اپنی بہنوں کو دھتکارا ۔۔۔۔

بیٹیو ں کو تو لوگ دل سے لگا کر رکھتے ہیں۔۔وہ تو جگر کے ٹکرے ہوتی ہیں۔۔۔میں نے اس کا ہی دل ٹکرے ٹکرے کر دیا۔۔۔

وہ میری نفرت سہتے سہتے میڑک تک پہنچ گئی۔۔۔۔بنا ماتھے پہ شکن ڈالے۔۔۔اتنی سی عمر میں ہمارے سارے کام خود کر تی۔۔غرض اس نے اچھی بیٹیو ں والے سب حق ادا کر دئیے تھے۔۔۔وہ ایسی ہی تھی۔۔۔اپنے نام کی ایک۔۔۔رجب کی ،برگ گل،۔۔۔۔۔

"بابا۔۔" رجب کی پر یشان سی آواز گو نجی۔۔۔۔

اسکے بڑھتے قدم تھم گئے۔۔۔جسے زنجیر سے جکھڑےگئے ہوں۔۔۔

"آپ نے عروہ کو بتایا"رجب لالہ ہمشہ سے اس کے حق کیلیے لڑے تھے۔۔آج نجانے کیا موضوع تھا ۔۔۔وہ بمشکل دیوار کا سہارا لیے کھڑی تھی۔۔۔دل سارے بدن میں فٹ ہوکر دھڑک رہا تھا۔۔۔

"کیا اب میں اسے بتاؤ کہ اسکے حصے کی پراپرٹی مجھے فروخت کرنی پڑھ رہی ہیے۔اسے اسکے مقام پہ رہنے دو۔۔۔"

اس میں اور تاب شنیدن(سننے کی طاقت)نہیں تھی۔۔اسے حیات جاوداں کی تپیدن (تڑپ ،بے قراری )نہ تھی۔۔وہ تو اپنو ں کی منت کش(احسان مند) تھی۔۔جنہوں نے اسے خو شخال مکمل زیست عطا کی تھی۔۔۔

وہ سنبد آسا(ہرمل کے دانے کی طرح ،ہرمل ایک چھوٹا سا سیاہ رنگ کا دانہ ہوتا ہے ۔۔جو آگ میں ڈالنے پہ چٹحتا ہے)کی طرح آگ میں پڑی تڑپ رہی تھی۔۔

رجب کی برگ گل (پھول کی پتی)اسکی خوبصورت برگ گل

جل رہی تھی۔۔۔اسکا دم نکل رہا تھا ۔۔

وہ تو قفس میں قید طائر کی ماند بھی نہ تھی۔۔۔جسے پروازکاشوق ہو۔۔۔وہ تو فلک کی بلندیوں کو چھو کر واپس اسی قفس میں آن بیٹھی تھی۔۔۔اسکے لیے زندگی وہ قفس تھی۔۔۔۔اس کے باپ کا وہ گھر جہاں زندگی کے سب رنگ اس کے گرد محورقص تھے۔۔۔چاہے نفرت کے رنگوں میں لپٹے ہوئے ہی۔۔۔۔۔

"بابا ۔۔۔۔عروہ"رضا اور رجب اسکے دونوں بھائیوں کی چیخ پہ وہ ایکدم رکے تھے۔۔۔شاید زندگی میں پہلی دفعہ عروہ کیلیے ان کا دل عجیب طرح سے دھڑکا ۔۔۔اس بیٹی کیلیے جسکو انہوں نے ازل سے عورت کے عہدے پہ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔جیسے وہ فورانظر انداز کر گئے۔۔۔۔اس کی ماں اور گھر کے سبھی افراد آچکے تھے۔۔۔وہ زمیں پہ گری پڑی تھی۔۔۔اسکے ہاتھ میں وہی پراپرٹی کی فائل تھی۔۔۔

"دیکھا یہ ہے ان کی اوقات ۔۔۔میں نے اسکی پراپرٹی کیا فروحت کی ۔۔اسے بے ہوشی کادورہ پڑ گیا۔۔۔"انہوں نے تنفر سے کہتے اک غلط نگاہ بے ہوش پڑی عروہ پہ ڈال کو قدموں کو واپس موڑ لیا۔۔۔۔

"بابا خدا کیلیے بس کریں"رجب نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔۔

"یہ سانس کیوں نہیں لے رہی رجب"شاید زندگی میں پہلی دفعہ رجب کے علاؤہ اسکے گھر کے کسی مرد کے لہجے میں اس کے لئے نمی تھی۔۔۔رضا لالہ کی درد بھری آواز پہ ضیاءاحمر کے بڑھتے قدم تھمے۔۔۔۔انہوں نے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔اسےکے لالہ کی گود میں رکھا اس کا چہرہ زرد پھول کی طرح لگ رہا تھا۔۔اسکی ماں نے سرخ آنکھوں سے اس کی سرد پیشانی چومی تھی۔۔

رجب اور رضا اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔۔۔اسکی ماں نم آنکھوں سے اپنے خالی ہاتھ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ضیاءاحمر ساکت روح ،دردسے پھٹتے  قلب کے ساتھ گاڑی تک پہنچے تھے۔۔اج تو لگ رہا تھا کوئی ان کے دل کوذبخ کر گیا ہو۔۔۔۔سانسوں میں وخشت ویرانی پھیل گئی تھی۔۔رجب نے ان کا ہاتھ تھام کو گاڑی میں بٹھایا۔۔۔اوررضا نے گاڑی زن سے اڑائی۔۔۔

"رضایہ اٹھ نہیں رہی۔۔۔۔دیکھو۔۔۔عروہ ۔۔میری رانی۔۔۔لالہ کی جان ۔۔۔اٹھو۔۔۔ایک دفعہ تو اٹھو۔۔۔دیکھو پلیز ایک دفعہ ۔۔۔ایک دفعہ آنکھوں کو کھولو۔۔۔تم تو بن بلائے آجاتی ہو۔۔۔اب کیوں نہیں سن رہی۔۔۔"وہ جوان مرد اس کا سر منہ چومتا ،التجائیں کرتا ،پھوٹ پھوٹ کو رو رہا تھا۔۔۔دل کا درد حد سے سوا تھا۔۔۔

"عروہ ۔۔۔۔لالہ قربان ۔۔۔۔ایک دفعہ اپنی آواز سنا دو۔۔۔۔لالہ کا دل پھٹ جا ہے گا۔۔۔۔بابا دیکھیں ۔۔یہ میری بھی نہیں سن رہی"اس نے روتے التجئائیں کرتے باپ کو پکار ا۔۔جو اسکا ہاتھ تھامے ساکت بیٹھے تھے۔۔۔۔۔"۔عروہ"وہ درد سے چیخ پڑا ۔۔۔گاڑی چلاتے رضا نے بڑے ضبط سے خود کو رونے سے باز رکھا۔۔۔"کیوں نہیں سن رہی تم مجھے..اتنی ضد کہاں سے آگئی ۔۔تم میں۔۔۔"وہ روتا جا رہا تھا۔۔۔۔درد سے ازیت سے۔۔۔وہ تینوں مرد ازیت میں تھے۔۔۔ایک ازیت سے مر رہا تھا۔۔۔روسرا ساکت بیٹھا تھا اسکا ہاتھ تھامے ۔۔۔۔وہ تیسرا مرد گاڑی چلاتا بڑے ضبط سے خود کو رونے سے روکے ہوئے تھا۔۔۔وہ اس گھر کے مرد تھے۔۔جن کے دل ودماغ میں ان کے اپنے باپ نے عورت کیلیے زہر بھرا ہوا تھا۔۔۔اس وقت وہ عورت کیلیے نہیں اپنی ۔۔بہن ۔۔اور بیٹی کیلیے رو رہے تھے۔۔۔تڑپ رہے تھے۔۔۔

ہوسپٹل کے اندر رضا اسے اٹھائے سرخ آنکھوں کے ساتھ آگےبڑھ رہا تھا۔۔۔اسکے دائیں طرف  ۔۔عروہ کے زرد چہرے کو دیکھ کر اپنی سسکیوں کو روکتا رجب۔۔۔انکے پیچھے پیچھے نڈھال سے ضیاء احمر۔۔۔۔انکے آندر کی نفرت ،انکا غصہ تو کہی نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔سامنے سے رافع لالہ اپنے ڈاکٹر کے لباس میں آرہے تھے۔۔۔جنہیں شاید گھر سے فون آچکا  تھا۔۔۔

"عروہ ۔۔۔شہزادی دیکھو۔۔۔میں آیاہوں۔۔۔"انہوں نے ایک نگاہ سب پہ ڈالتے ہوئے ۔۔۔رضا کے بازوں سے لے لیا۔۔۔۔یہ کام بھی انہوں نے شاید پہلی دفعہ کیاتھا۔۔۔اسے گود میں اٹھا لیا تھا۔۔۔ورنہ وہ توبچپن میں بھی" دی گریٹ رافع لالہ "کی دیوانی ہوا کرتی تھی۔۔۔ان کی آغوش کیلیے ترستی تھی۔۔۔

ڈاکٹر ز کی ٹیم اسکے اوپر جھکی ہوئی اسکا معائنہ کر رہی تھی۔۔۔دنیا کی نظر میں تو وہ ہارٹ سرجن ڈاکٹر رافع کی اکلوتی بہن ہے۔۔۔وہ نہیں جانتے تھے۔۔۔۔ان کے سامنے پڑی  زرد پھول جیسی لڑکی۔۔۔اب سے کچھ دیر پہلے تک ایک "عورت"تھی۔۔۔

رافع نے گردن موڑ کر دیوار کے ساتھ بڑے ضبط سے کھڑے رجب کو دیکھا۔۔۔ہا ں وہ رجب کی جان تھی۔۔۔اسکی برگ گل تھی۔۔۔اس نے باپ کو دیکھا وہ رضا کے سہارے بڑی مشکل سے کھڑے تھے۔۔۔جیسے کوئی لٹا ہارا ہوا مسافر ،جسکو ابھی ادراک ہوا ،،،کہ وہ حالی دامن رہ گیا ہے۔۔اپنا سب کچھ گھواچکا ہے۔۔۔۔ "ڈاکٹر رافع ۔۔۔" ڈاکٹر عطیہ کی آواز پہ وہ متوجہ ہوئے۔۔ڈاکٹر عطیہ کو دیکھتے ہوئے وہ لڑکھڑائے تھے۔۔۔۔۔

۔

"ان کا ہارٹ فیل ہوا ہے۔۔۔"وہ آکے کہہ رہیں  ۔۔۔"اتنی سی عمر میں۔۔۔ان کو کوئی صدمہ لگا ہے۔"

وہ چاروں مرد اسکی طرف روتے ہوئے بڑے تھے۔۔۔سارے میں ان کی سسکیاں گونج رہیں تھیں۔۔اسکا سر منہ چومتے وہ مرد دھاڈیں ما ر  کر رو رہیے تھے۔۔عورت جن کیلیے خودغرض ترین مخلوق تھی۔۔اس گھر کے مردوں نے رجب کی برگ گل کو نوچ لیا تھا۔۔۔اسے فنا کر دیا تھا۔۔۔

"کیا اتنی سی پراپرٹی کیلیے۔۔" ایک ازیت بھرا سوال اب بھی ان کے دماغ میں ٹرین کی طرح گزر گیا تھا۔۔۔

ڈاکٹر نے ان کے سامنے وہ کاغذ کیا ۔۔۔۔جسیے وہ اپنی بے جان مٹھی میں دبوچے ہوئے تھی۔۔۔

انہوں نے تڑپ کو وہ کاغذ تھام لیا۔۔۔۔۔وہ انکی میڈ یکل رپورٹ تھی۔۔۔انکے بلیڈ کینسر کی لا سٹ سٹیج تھی۔۔

انہوں نے سب لڑکوں کو بتایا۔۔وہ سن کو سہہ گئے۔۔انہوں نےعروہ کو نہیں بتا یا ۔۔۔وہ سب کو اپنی محبت کا بتا گئی۔۔۔

وہ سب کے سامنے ان کی نفرت سہتی رہیی۔۔۔

عروہ کے سامنے اس کے بابا کو کچھ ہو ۔۔۔وہ یہ نہیں سہہ سکی۔۔۔کیسی بد نصیب بہن اور بیٹی  تھی۔۔۔جیسے اپنے محرم مردوں کی محبت بھی ۔۔اس وقت ملی۔۔جب وہ ان سب رشتوں سے آزاد ہو چکی تھی۔۔اس کا ناتہ اس دنیا سے ختم ہو چکا تھا۔۔۔ہمارے جہان سے اب اسے کوئی سروکار نہیں تھا۔۔۔

وہ خود غرض نہ تھی۔۔۔خود غرض ہوتی تو۔۔پراپرٹی کے کاغذات دیکھ کر ان سے لرتی،جگھڑتی۔۔۔اسکی پراپرٹی اسکے بابا تھے۔۔۔انکے  کینسر کی لاسٹ سٹیج تھی۔۔۔وہ ان کے سارے دکھ سمیٹے ۔۔۔بابا کا غم دل سے لگائے۔۔۔اندھیری قبر میں جا سو ئی تھی۔۔۔وہ عورت تھی

رجب کی برگ گل۔۔۔۔

انکے پا س سانسیں تھیں۔۔مگر زندگی روٹھ گئی تھی۔۔۔

وہ عورت سے محبت کرنا سیکھ گئے۔۔۔۔۔وہ نفرت سہتے دور جا بسی ۔۔۔۔۔

انکے سامنے اسکی ڈائری پڑی تھی۔۔جس میں لکھی اس ٹو ٹی پھوٹی نظم کو ضیاء احمر روتے ہوئے باربار دہراء رہے تھے۔

"بھلے چھین لو مجھ سے میری بنیائی

توڑ دو یہ ہاتھ بھی میرے

چاہو تو کاٹ ڈالو پاؤں بھی

مگر لوٹا دو مجھ کو بس

اپنا اعتباربابا

چاہو تو لے لو بستہ بھی میرا

پھاڑ دو یہ ساری کتابیں

رکھا ہے سامنے یہ قلم بھی توڑ دو

مگر لوٹا دو مجھ کو بس

اپنا اعتباربابا

زندگی اور سانسیں بھی لڑنے لگیں ہیں

چاہو تم ان سانسوں کو رکھ لو

 بھلے تم یہ ہستی مٹا دو

مگر لوٹا دو مجھ کو بس

اپنا اعتباربابا

چاہو تو صرف  پیار کی ایک نظر ہی دیکھو

اب تو پاؤں میں تھکن اترنے لگی ہے

اور ہا تھو ں کی لرزش بھی بڑھنے لگی ہے۔۔

  مگر لوٹا دو مجھ کو بس

اپنا اعتباربابا۔۔۔

(عابی احمد)

***************

No comments:

Post a Comment