عنوان
:
آزمائشِ محبت
ثانیہ
شاہ
ایک
جھوٹ سے بنانے چلے تھے
قسمت ہماری
درد دے کر کرنے چلے تھے دوا ہماری
چہرہ
کسی اور کا دکھا کر نام چھپا لیا ہمیں بن بتائے کسی اور کو اپنا بنا لیا
تکلیف
ایسے دی کہ بتا نہ سکیں سوال ایسے کہ سلجھا نہ سکے
بے بسی ایسی کہ چھپا نہ سکے یقین ایسا کہ ڈگمگا نہ سکے
.چین
اور اس سے لے کر ہمیں تنہائیاں دے گئے
کچھ
اس طرح سے ازما رہے تھے وہ محبت ہماری
زخم روح کو دے کر دوا زندگی کی کر رہے تھے ہماری
ہمیں
محبت میں ڈال کر بولے یہ ازمائش ہے تمہاری اور جب پوچھا ان سے اس بے سبب سزا کی وجہ
تو بولے روح کی محبت ازما رہے تھے تمہاری
*************