تُو
مل کے بھی نہ ملا مجھ کو
پھر کسی اور کی کیا تمنا
کروں
میں سمجھا تھا تُو الگ ہے
سب سے
پر اب کیا ہی تجھ سے گلا
کروں
جب تو دوست ہو کے نہ سمجھ
سکا
پھر کسی اور سے کیا ہی امید
کروں
جب تُو ہی نہیں
چاہتا
ہو کوئی مخلص دوست
تیرا
تو کیا ہی تیری آرزو
کروں
By
Tayyaba Umair
*************
اس نئے سال میں
مل نہ جائے کوئی پرانا
اک
بے وجہ سی آس ہے
پر
میں ٹھیک ہوں
بھول
کے ماضی کی یادیں
ہو جاؤں پُر سکوں
اک
ذرا سی امید ہے
پر
میں ٹھیک ہوں
دیکھا
جو
تنہا چاند تو
مجھے
ایسا لگا میں ہوں
ذرا
سا دل اداس ہے
پر میں ٹھیک ہوں
عجیب
دن، دکھی شام ہے
بے
بسی ہے ہر سوں
زرا
سا وقت خراب ہے
پر
میں ٹھیک ہوں
دیکھا
سفید پھول تو
کوئی یاد آ گیا
جدائی
کا غم بے حساب ہے
پر
میں ٹھیک ہوں
ہے
ہمت ، صبر ، یا
عزتِ
نفس کی بات ہے
تُو
نہیں ہے دیکھ
پر
میں ٹھیک ہوں
ہنستا
ہوں تو کیا
مجھے
کوئی غم نہیں
خوش
ہوں یا نہیں
پر
میں ٹھیک ہوں
کٹ رہی ہے زندگی
بس
تیری وجہ سے
ذرا
سی بے چینی ہے
پر
میں ٹھیک ہوں
نئے
سال میں یاد نہ
آئیں گے گزرے لمحے
اِک زرا سی خوش فہمی ہے
پر میں ٹھیک ہوں
By
Tayyaba Umair
******************
گزرے سال
گزرے
سال بہت کُچھ
سیکھا
ہے میں نے
نہیں
رہتا وقت صدا ایک جیسا
جدائی
کے خوف سے موت کو
گلے لگا کر دیکھا ہے میں نے
کوئی
نہیں رہتا ساتھ ہمیشہ
نہ
مُمکن کو مُمکن
ہوتے دیکھا ہے میں نے
کوئی
نہیں رہتا صدا تمھارا
پسندیدہ
شخص کے
بنا
رہنا سیکھا ہے میں نے
دکھوں
سے چور ہو کے
مسکرانہ سیکھا ہے میں نے
دے
کے خود کو حوصلا
خود ہی اپنا دل جیتا ہے میں نے
نہیں
ہے کوئی اپنا
مشکل
وقت میں اکثر خود کو
تنہا
دیکھا ہے میں نے
خوشی،
غم اور لوگ ہمیشہ نہیں رہتے
یہ
وقت سے سیکھا ہے میں نے
گزرے
سال بہت کُچھ دیکھا میں نے
اچھوں
کو برے ہوتے۔۔
اپنوں
کو جاتے دیکھا ہے میں نے
برے
وقت میں ہاتھ چھوڑواتے
دوستوں
کو بیگانہ ہوتے دیکھا ہے میں نے
خوابوں
کو خاک۔۔
خون
کے رشتوں کو
انجانہ
ہوتے دیکھا ہے میں نے
جو
سمجھ بیٹھے تھے
دنیا کو مستقل ٹھکانہ
اُن
لوگوں کو بھی اِس دنیا سے
جاتے دیکھا ہے میں نے
کُچھ
بھی ہمیشہ کے لیے نہیں۔۔
اِس
فانی دنیا سے سیکھا ہے میں نے
گزرے
سال بہت کُچھ دیکھا ہے میں نے
By
Tayyaba Umair
*******************
"انسان "
نہ
دین ہے نہ اِسلام ہے
نہ نماز ہے نہ قرآن ہے
اِسے
صرف دنیا جہاں کا خیال ہے
نہ آخرت کا ڈر ہے نہ ڈرِ قبر ہے
نہ خوفِ خدا ہے نہ وفا کی خبر ہے
بس
پیسے کا بھوکا ہے
فطرتِ
دھوکہ ہے
رواج
اِس کا انوکھا ہے
( از قلم طیبہ عمیر )
**********************
لا پتہ
اک
دن کہیں کھو جاؤں گی میں
تیری آنکھوں سے اوجھل ہو جاؤں گی
میں
بھول
کر تیری ساری عنایتیں
اس
محبت سے مکر جاؤں گی میں
اپنے
وجود کے درد میں فنا ہو جاؤں گی میں
اک دن کہیں لاپتہ ہو جاؤں گی
میں
کہیں ڈلتے سورج کی طرح چاند ہو جاؤں گی میں
کہیں گزرتے دن کی طرح شام ہو جاؤں
گی میں
اک دن کہیں کھو جاؤں گی میں
تیری آنکھوں سے اوجھل ہو جاؤں گی
میں
تو
ڈھونڈتی رہ جائے گی
اک
دن ایسا کہیں لاپتہ ہو جاؤں گی میں
by
Tayyaba Umair
*****************
عذابِ زندگی
زندگی
کے عذاب گہرے میں سہ چکی ہوں
اب
پہلے جیسی نہیں رہی میں سب کو بتا چکی ہوں
چپ
چاپ درد سارے میں سہ چکی ہوں
نہیں
ہوتا لحاظ کسی کا میں پہلے بھی بتا چکی ہوں
مقدروں
کے کھیل ہیں یہ تو کسی سے مجھ کو گلا نہیں ہے
بہت
اب میں سہ چکی اور ہمت مجھ میں نہیں ہے
ترس
مت کرنا مجھ پر احساس اب مجھ میں نہیں ہے
جذبات
سارے مر چکے ہیں
یقین
کی بات کرتے ہو تم
اعتبار
پہلے بھی بہتوں پہ کر چکی ہوں
ظاہری
تو میں زندہ ہوں مگر
باطن
تو کب کی مر چکی ہوں
By
Tayyaba Umair
****************
Allhamdulilah 😇
ReplyDeleteAllhamdulilah 😇
ReplyDelete💞😊
ReplyDelete