بہت دنوں سے
نہیں لکھا ہے
یہ حال اپنا خیال اپنا
بہت جوابوں کے درمیاں
اک سوال اپنا
بہت دنوں سے
نہیں لکھا ہے
تمھارے لفظوں کے خنجروں سے
میری وفا کا جو خوں ہوا ہے
نہیں لکھا ہے
نہیں لکھا ہے ہجوم یاراں
میں بھی ہوں تنہا
نہیں ہے مرا وجود باقی
تمھارے بن ہاں
نہیں لکھا ہے
کہ سانس مجھ پر گراں ہے ہر پل
مزاج میرا بہت ہے بے کل
نہیں لکھا ہے
نشیلی آنکھوں کا جام دے دو
تم آ کہ مجھ کو آرام دے دو
بہت دنوں سے نہیں لکھا ہے
مسما