سب جس کیلئے دامن پھیلائے ہوئے ہیں
وہ پھول میرے باغ کے مرجھائے ہوئے ہیں
اِک تم ہو کے توجہ مبذول کی جانب
اِک ہم ہیں کے خود تک سے بھی اکتائے ہوئے ہیں
قدرت نے تیرے جانے کا پھر غم منایا ایسے
آگ اڑھ گئی اور چشمے بُجھائے ہوئے ہیں
دشت ہجر میں یادوں کا مہ کمال ہے فلزہ
یہ بادل تو صدیوں سے صحرا میں چھائے ہوئے ہیں
شاعرہ: فلزہ گُل
**********
وحشتِ قلب و ،زونی راتیں ،ہے سکونی مون سون
میں
یاد ہے مجھ کو کھویا تھا خود کو ،پہلی مرتبہ
جون میں
طیش میں آکر میرے رفو گر نے اُدھیڑ دیئے ہیں
میرے سارے زخم
رفو ہے کسی کام کا نہیں جب وفا شامل ہے تیرے
خون میں
وہی پھر چھوڑ گیا اس قلب کو رہائش پوری ہونے
پر
رکھا تھا جس کا نام میں نے ياقلبی اپنے فون
میں
جس کو دیکھ کر زون بھی اترتا ہے پل پل صدقے
وہ ماہ کامل فلزہ ،چھوڑ گیا مجھ کو موت کے سکون
میں
شاعرہ: فلزہ گُل
No comments:
Post a Comment