کیا ہے عشق ؟
ہر
کسی کی زبان پہ یہاں کلمہ ہے عشق
سنو
تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ آخر کیا ہے عشق؟
ہر
کوئی مبتلا ہے اس مرض لافانی میں
ایک
بیمار کے ٹوٹے دل کی بے کس صدا ہے عشق
سنو
تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ آخر کیا ہے عشق ؟
وصل
ہے ہجر ہے دھوپ ہے يا چھاؤں
صحرا
نوش کی تپتی ریت پہ چند بوندوں کی دعا ہے عشق
سجدے
میں گرتے مومن ہیں ہو کہ کافر اٹھتے ہیں
کھڑکیوں
سے لگ کے بیٹھوں کی رب سے دغا ہے عشق
سنو
تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ آخر کیا ہے عشق؟
قفل
لگا ہے دل و دماغ کی اندھیری کوٹھری پر
بیڑیوں
میں بندھے قیدی کی ظلمت سے وفا ہے عشق
سنو
تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ آخر کیا ہے عشق؟
گرتے
ہووے پتوں کا ہر سانس لوٹانا ٹہنی پر اور ساحل کا پھر صدقے جانا اپنے ہی پانی پر میدانِ
چاہت جنگ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کے آنا
ایک
پردہ دل پوش کیلئے جفا کی سزا ہے عشق
سنو
تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ آخر کیا ہے عشق؟
مفلس
بچوں کی آنکھیں و مے کدے کے فلسفی
تعاقب
میں ہیں دونوں چاہت میں کسی کی
خفا
ہے زندگی یا پھر لگا ہے مرض خاموشی
طبیب
ہے بے کس اور آخری دوا ہے عشق
سنو
تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ آخر کیا ہے عشق؟
تو
سنو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسوائی
ہے قید ہے بربادی بھی ناپید ہے
خفا
ہے نبھا ہے؛ خود کو کھونے کے سزا ہے
عذاب
ہے قہر ہے يا جینے کا ایک زہر ہے
زندگی
کا سوگ ہے يا عمر بھر کا روگ ہے
الغرض
یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔
بستر
مرگ پر پڑے ہوئے مریض کی
اپنے
ہی قاتل سے فلزہ قتل کی نبھا ہے عشق
سنو
تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ آخر کیا ہے عشق؟
شاعرہ
۔فلزه گُل
*************
No comments:
Post a Comment