اچھی جتنی بھی گزرے یہ زندگی کم ہے
مرے جارہے ہیں پھر بھی جینے کا دم ہے
جسے دیکھو شکایتیں ہی شایتیں ہیں
اے زیست تیری وجہ سے ہر آنکھ نم ہے
خدشات ہیں جو سناتے ہیں کچھ کہانیاں
لگتا ہے باقی تجھ میں ابھی بہت خم ہے
اے موت تجھ تک پہنچنے کی راہ میں
میرا بچپن میری جوانی سب ہی زم ہے
سانسوں کے طلاطم سے لڑتے لڑتے ہمدم
وجود میرا اب ہورہا بے یوں ہی دم ہے
بہت سی خوشاں ہیں یوں تو میرے پاس
اور اک ڈھیر بھی پڑا یہاں پر جی غم ہے
No comments:
Post a Comment