زندگی جیسے کھیل ہے کسی جواری کا
ہر ایک کو انتظار ہے بس اپنی باری کا
ہم خود کو سونپ کر کچھ لیں بھی کیا
یہ تمام تر سودا ہی ہے نیری خواری کا
وقت جو گزر رہا ہے وہی اچھا ہے اچھا
ایک بس خالی پن سا ہےجی بے کاری کا
الفت کو جانے کیا کیا کہتے ہیں یہ لوگ
میرا خیال ہے نام ہےصرف یہ تابداری کا
لوگ کتنے ہوگٸے ہیں خاک سے خاکستر
کسی نےکام کیا عشق میں مردمشماری کا
ہر دن اک نیا سلسلہ ہے شروع زیست میں
کوٸ دن شیر کا ہے توکوٸی شکاری کا
میسر سب کو ہوتا ہے کہاں پھر جناب
شوق تو سب کو ہے سؔرکش کی یاری کا
No comments:
Post a Comment