ایسا نہیں کہ تجھ سے یا مجھ
سے ہے ان کو اختلاف
سچ تو یہ ہے کہ سچ سے سب کو
ہے اختلاف
تو سمجھتا ہے کہ بس میرا مخالف
تو ہی ہے
تو یہ کیا جانے کہ میں تو
خود بھی ہوں اپنے خلاف
شاہ عشاق کے عہدے سے تجھے
کرتے ہیں اب معزول کہ
کئی بےضابطگیوں کا عشق میں
تیری ہوا ہے انکشاف
شاعری میں تو جو میری عکس
میرا ڈھونڈتا ہے
مگر حقیقت میں ایسی ہوں میں
اپنے لفظوں کے برخلاف
خدا کو تو نے جو خط لکھا تھا
بتا کیا آس کا جواب آیا
سنا ہے اس نے بھی رکھ لیا
ہے چھپا کہ اس پہ چڑھا غلاف
تو پوچھتا ہے کہاں ہے سعدی
تیرے ہی دل میں
تیری محبت کا روزہ رکھ کہ
وہ دیکھ بیٹھی ہے اعتکاف
Sadia sadi
٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment