رش
ہو جہاں پر میں گھر دیکھتی ہوں
یقین
کر ادھر سے ادھر دیکھتی ہوں
کہ
منزل کا خود میں عصر دیکھتی ہوں
نہ
ملنے پہ دل میں صبر دیکھتی ہوں
میں
کھلتے ہوئے کچھ گلوں کی تھی عادی
اب
رشتوں میں سانپوں کے گھر دیکھتی ہوں
میں
چلتی رہی تھی جو خوابوں میں اکثر
میں
خوابوں کا دن میں ثمر دیکھتی ہوں
مسلسل
ہے جاری مرمت یوں دل کی
کہ
کانٹوں پہ شیشے کا گھر دیکھتی ہوں
حافظ
شبانہ نواز عنبر
***********
No comments:
Post a Comment