نقش
میرے
ذھن میں رہ گیے کچھ نقش ایسے۔
کوی
پتھر پہ کھینچے لکیر ہو جیسے۔
وقت
گزرا ،حالات بدلے، لوگ بدلے۔
نہیں
بدلے تو بس میرے حالات نا بدلے
دل
میں خوف ہے انسان سے بے حد مجھے لیکن،
یہ
دو منہ والے سانپوں سے بچے پر ہم کیسے۔
کانپ
جاتی ہے روح میری بڑی بے رحمی سے۔
جب
یاد آئے لمحے وہ برباد سے میرے۔
تھکا
دیا ہے اس سفر نے مجھے جوانی میں اے شاھین
آرام
کا سوچا تو طوفان آئے پھر سے۔
اے
ابلیسِ انسانی خدارا اب دور رہو مجھ سے ۔
میری
آنسوں اب اجاڑےگی تیری ہستی بستی زندگی۔
میں
نادان تھا صرف، نا کہ بے وقوف۔
تیرے
الفاظ بھی تو تیرے ہتھیار تھے جیسے۔
ہر
منظرِ درد ہر لفظِ تلخ رہ گئے گہرے۔
ہر
طرف اجالے بس میرے مقدر میں رہ گیے اندھیرے۔
میرا
غم دیکھ رہا ہے خدا عرش سے یاراں۔
بڑا
بے درد سا عالم ہو گا تیرے زندگی کا یاد رکھنا ۔
جو
کرتے رہو ہو اور کر رہے ہو ابھی۔
مکافات
کی دنیا ہے برداشت کرو گے پھر کیسے۔
لینیٰ
پانیزئ
No comments:
Post a Comment