حسرت
بچپن
گزار دی حسرتوں میں جوانی کے
جوانی
گزار دی حسرتوں کی تلاش میں
ہم
نکلے زندگی جینے زمانے کے اس بیڑ میں
دنیا
کی حقیقتوں سے واقفیت ہوئ تو لرز گئے
چلتے
گئے اس حسرت میں،ملے گی منزل آگے مجھے
منزل
نا ملی بس لوگوں کی حقیقتیں ملتی گئ
ہر
رات ہم اپنے حسرتوں پہ فاتحہ پڑھ کے سونے لگے
ہاے!
ہماری ہر حسرت حسرت ہی رہ گئ
ہم
نے تو دفن کی اپنی حسرتیں دوران سفر ہی
خاک
ڈال کے ارمانوں پہ نکل گئے پھر آگے
پیچھے
مڑ کر دیکھا تو نکل چکا تھا بہت آگے
راستہ
نا تھا کوی بھی اب چلتے رہنا تھا مجھے آگے
خود
کو دیکھا بیٹھ کے حسرت کی نگاہ سے
ہم
تو ہم نا رہے ، ایک حسرت بن گیے خود کے لیے
میں
یہ نہیں ہوں ،جو میں دیکھ رہا ہوں خود کو
میں
کیا تھا آخر حسرتوں نے مجھے کیا بنا دیا
ہم
سے نا پوچھے کوئ ہماری حقیقت اب
ہم
تو خاک تلے دفن ہوئے ایک کتاب ہے
ہماری
زندگی کی کتاب لکھ چکی ہے کہیں زبانوں میں
ہمیں
پڑھنا کسی کے بس کی بات نہیں اب
ہم
شائد راز ہی رہے گے ہمیشہ اے یاروں
ہرکوئ
اپنےمطلب کا صفحہ پڑھ کے چل دیتا ہے
لینیٰ
پانیزئ
No comments:
Post a Comment