چلو بچپن کو لکھتے ہیں
وہ مٹی سے بنے گھر کو
دوبارہ رنگ بھرتے ہیں
اداسی کو خوشی میں ہم
بدل بھی لیں تو کیا کرنا
جو گزرا ہے جو بچھڑا ہے
اسے ہم بھول جاتے ہیں
کبھی واپس نہ آۓ گا
جیا نہ پھر سے جاۓ گا
چلو وہ ماضی لکھتے ہیں
چلو اب چھوڑ بھی دو تم
ادھوری خواہشوں کا غم
ملی خوشیاں جو بچپن میں
انھیں لفظوں میں لکھتے ہیں
مرے بچپن کی تلخی نے
مجھے ہر پل رلایا ہے
مگر اب ایسا لگتا ہے
یہ ماضی مار ڈالے گا
دکھوں سے چور ہوں تو کیا
لبوں کو سی کے بیٹھو تم
اذیت ناک لمحوں کو
مٹا دو اپنے ہاتھوں سے
چلو قسمت کے پنوں میں
زرا رسوائی لکھتے ہیں
مقدر اپنا لکھتے ہیں
مجھے بچپن کو جینا تھا
اسی خواہش کو چاہا تھا
مکمل ہو سکی نہ جو
چلو ان حسرتوں کو بھی
چلو بچپن کو لکھتے ہیں
وہ جس کی یاد سے بھی میں
تڑپ کر کانپ جاتی ہوں
نہیں جینا مجھے بچپن
خودی میں کھو چکی ہوں اب
مری خواہش مری حسرت
چلو سب دفن کرتے ہیں
چلو بچپن کو لکھتے ہیں
جیا نہ پھر سے جاۓ گا
ہم اس ماضی کو لکھتے ہیں
اقراء ندیم
*************
No comments:
Post a Comment