اے خود میں مگن انسان
کیوں خود میں ہو حیران
کیا تم محسوس نہیں کرتے
وہ درد٬وہ ٹیس٬وہ آہٹیں
اٌن ننھے بچوں کی پکار٬اٌن ماؤں کی
تڑپ اور باپ کی بے بسی
وہ کتنے درد اٹھا رہے ہیں
وطن کو اپنے بچانے واسطے
لحت جگر لٹا رہے ہیں
اے خود میں مگن انسان
تمہیں اپنے بھائی بلارہے ہیں.
رویہ مخمصانہ ہے
وہ دل پتھر کی رکھتے ہیں
لہو بہا کر٬سروں کو کاٹ کر
وطن اپنا سجا رہے ہیں
وہ ایسا انصاف لارہے ہیں
پھولوں کو ٹہنی سے توڑ کر وہ
سمجھ رہے ہیں جڑیں اکھاڑلیں
تو جا بتا دے
بے کسی کی اور بے بسی کی ہزاروں
داستانیں اس مٹی تلے چھپی ہوئیں ہیں
پھولوں کو ٹہنی سے توڑ کر وہ
نہ آشیانہ بنا سکیں گے
اٌجاڑ کروہ ٹکانے کبھی نہ خود کو بسا
سکیں گے.
مسل کر ہاتھوں میں تتلیوں کو
وہ جن رنگوں سے اپنے ہاتھوں کو رنگ
رہے ہیں
انہیں خبر کیا٬انہیں پتہ کیا
کہ چین اپنا وہ اپنے ہاتھوں لٹا رہے
ہیں
مگر اے انسان
تمہیں خبر ہے٬تمہیں پتہ ہے
انجان اتنا کیوں بن رہے ہو
تیرا درد تو جڑا ہوا ہے ان آہوں اور
سسکیوں سے
پھر کیوں چهپ کر خود کو ان کے جیسا
بنا رہا ہے
تو جا. ...قدم بڑھادے٬انہیں بتادے
کشمیر اپنا حصہ رہے گا
نہ تیرے بن اب جیا سکے گا.
حیا خان
No comments:
Post a Comment