affiliate marketing Famous Urdu Poetry: Tark e ulfat by Tanzeel Shakar

Monday 18 February 2019

Tark e ulfat by Tanzeel Shakar


ترکِ الفت
اَب۔۔۔۔
اَب ان کانچ سے نگینوں کی سطح نہیں دھندلاتی
اَب پلکوں کی سرحد کو بھی بِن موسم کی برسات کو روکنے کی تگ و دو میں ہلکان نہیں ہونا پڑتا
اَب رخسار خشک رہتے ہیں
اَب ان کانچ سے نگینوں کی سرخی بتدریج کم ہو رہی ہے
موتیوں کی لڑی کو پونچھنے کے لیے اَب یہ ہاتھ نہیں اُٹھتے
جس آواز پر۔۔۔۔
جس حیات آفریں، جس جان لیوا آواز پر
کبھی بیعت کی تھی
وہ اب ہمہ وقت کانوں میں نہیں گونجتی
اَب رَس نہیں گھولتی
جس چہرے کی۔۔۔۔
جس مجسم حُسن، رب کی صناعی کا شاہکار چہرے کی
کبھی پرستش کی تھی
وہ اَب ذہن کے پردے سے محو ہو رہا ہے
وجود میں گڑے اپنے پنجے
لحظہ بہ لحظہ نکال رہا ہے
گو کہ اِس ستم آمیز اَمر میں
وجود کے ریشے ریشے سے لہو رِس رہا ہے
مگر اس وجود کی۔۔۔۔
اس کھنڈر وجود کی
اب پرواہ ہی کس کو ہے
یہ لہولہان ہو
یہ سُلگے
یہ فنا ہوجائے
اب پرواہ نہیں رہی
کہ اب تو بہت کچھ نہیں رہا۔۔۔۔
رہا دل نام کا سرکش اور دغاباز لوتھڑا
تو وہ تو کب کا۔۔۔۔
اپنی بے قدری پر ماتم کناں
وجود کے کھنڈر قبرستان کی تاریک ترین قبر میں دفن ہو چکا
ذہن یا پاسبانِ عقل کا اس محفل میں تذکرہ نہ ہوگا
کہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اہلِ دل سے
تو اَب۔۔۔۔
اِن آتی جاتی سانسوں کا بوجھ 
مزید نہیں ڈھویا جاتا
اَب اِس زندگی نام کی قید سے فرار درکار ہے
یہ وجود۔۔۔۔
اَن دیکھی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ہے
اِس میں قید نیم مردہ روح
بے بس مقبوض پرندے سے بھی زیادہ 
بے بسی سے پھڑپھڑاتی ہے
اور ہر لحظہ اپنی آزادی کے لیے فریاد گو ہے
وہ خود میں باقی
حیات کی موہوم سی رمق کو بھی فنا کر دینا چاہتی ہے
وہ نجات چاہتی ہے
وہ ترکِ الفت کی مرتکب ہوئی ہے
وہ ترکِ الفت پر مجبور کر دی گئی ہے
اَب۔۔۔۔
اَب مزید اسے جینے کی خواہش تو درکنار ضرورت بھی انتہائی لغو معلوم ہوتی ہے
اَب۔۔۔۔
اِس متعفن روح کو
کہ جس کے تعفن کا باعث اس میں محبت کی سڑتی گلتی نعش ہے جو اِس کی تازگی و رعنائی کو نگل چکی ہے
تو اس متعفن روح کو اب مدفن ہو جانا چاہیے۔۔۔۔
اَب۔۔۔۔

تنزیل شاکر

2 comments: