غزل (حافظہ نصیحہ سرور)
دل کو ویراں کر گیا ہو گا
حادثہ تھا گزر گیا ہو گا
بے رُخی کی دوا سے پاگل دل
آج شاید تھوڑا سُدھر گیا ہو گا
جس کو جینا پڑا کسی کے لیے
وہ تو اندر سے مر گیا ہو گا
کوئی بھی منتظر نہیں جس کا
کیسے قدموں سے وہ گھر گیا ہو گا؟
اُس کو تنہائی راس تھی لیکن
اپنے سائے سے ہی ڈر گیا ہو گا
ہمارے ہنسنے پہ اتنی حیرت کیوں ہے
زخم تھا، زخم بھر ہی گیا ہو گا
آپ نے زہر جو دیا تھا ہمیں
وہ رگوں میں اُتر گیا ہو گا
ہم بھی محتاط تھے محبت میں
وہ بھی دنیا سے ڈر گیا ہو گا
بے وفائی تو آپ نے کی تھی
پر جُرم تو ہمارے سر ہی گیا ہو گا
bahtareeen
ReplyDelete