بتا تیری رضا کیا ہے
مجھے جب وحشت ہوتی تھی، میں اپنے آپ سے کہتا تھا
کوئی بہت پرانی بات نہیں، پر صدیاں بیتے جاتی ہیں
ماں میرے ساتھ میں سوتی تھی، میں جنت کنارے رہتا تھا
اک بستی سیدھی سادھی سی، جہاں لوگ پیارے بستے تھے
روتے دکھ میں سب مل کر، خوشی میں مل کر ہنستے تھے
وہاں رنگ برنگے پھول بہت، سرسبز درخت آویزاں تھے
جہاں بہاریں کھلکھلاتی تھیں، خزائیں جاڑے گریزاں تھے
یار بہت تھے میدانوں میں، ہم کھیل کے آتے شاموں میں
راتیں ہنسا کرتی تھیں، جب مل بیٹھتے راہوں میں
لڑنا بہنوں سے گھر آتے، وہ لاؤ جو بابا لائے تھے
پھر مل بانٹ کے کھا لینا، جو شہزادے کے لاڈ اٹھائے تھے
چھپن چھپائی کھیلتےمیں، دادا کی گود میں چھپتا تھا
پھر رات اچانک گزر جاتی، میں صبح کے وقت ہی اٹھتا تھا
اس چھپن چھپائی کے کھیل میں، اک عرصہ بیتہ پل بھر میں
بستی، دادا، بہنیں، بابا، اچک لئیے سب امبر نے
اک بہت بڑے ادارے میں، تعلیم نام کی ہوتی تھی
عزتیں لوٹ کے عزت ملنی، مستور عام ہی ہوتی تھی
مظلوم دبا کے خوش ہونا، وہ مفت کھانا غریبوں کا
جو اخلاق میں سب سے گندہ ہو، وہ صدر بننا تنظیموں کا
میں اس پاتال میں پھرتا تھا، جسے دور سنہری کہتا تھا
بتا تیری رضا کیا ہے؟ میں اپنے آپ سے کہتا تھا۔۔۔
نوکری کرنی پڑتی ہے، زندگی جب رنگ بدلتی ہے
شہزادے نئے آجاتے ہیں، شہزادی آنگن پھرتی ہے
اب شرم وحیا اپنا لے، تو اپنی رحمت کا قائد ہے
گر نہ بدلے تو اب بھی، تو لعنت کا قائل ہے
سر جھکا تو رب کے آگے، نظریں تیری نہ اونچی ہوں
ہاتھ تیرے یہاں اٹھیں، رحمتیں تیرے گھر پہنچی ہوں
چل چھوڑ پرے تو ماضی کو، ابھی تیرا گیا کیا ہے؟؟
خدا تجھ سے خود پوچھے گا، بتا تیری رضا کیا ہے۔۔؟؟
عثمان رمضان
For suggestions usmanramzan171@gmail. Com
ReplyDeleteAwesome <3
ReplyDelete