تمھارا بھی اب اُن سب میں شُمار تھوڑی ہے
جلاٶ
تم چاہے میرا دل تم سے پیار تھوڑی ہے
پکارا ہے تم کو ابھی دل نے بڑی ہی شدت سے
وقتی جزبہ ہے جناب عشق کا خُمار تھوڑی ہے
بس جی ہی تو چاہ رہا ہے تم سے بات کرنے کو
فراغت کے کام ہیں یہ ہمدم اقرار تھوڑی ہے
ہر صبح پر لگتا ہے کہ اب تمھیں یاد آٸی
ہوگی
دل کی ایسی ہی حالت ہوتی جی بار بار تھوڑی ہے
بس ابھی روکنا ہے خود کو تم سے رابطے پر
مشکل ہے مگر اب اتنا بھی دُشوار تھوڑی ہے
شاید ہورہی ہے کچھ تم سے الفت سی ہمیں
عمر یہ محبت کیلٸے
جی سازگار تھوڑی ہے
کتا لُطف ہے یاد کرنے میں اور پھر ترسنے میں
بات کرلینے میں وہ مزا اور وہ قرار تھوڑی ہے
اُسے خبر ہی نہیں ہم تڑپ رہے ہیں اک اُسی کے لٸے
ہاں ہوتی ہے الفت بھی سؔرکش کو انکار تھوڑی ہے
No comments:
Post a Comment