دلِ نادان لاچار کو زرا سنبھالیے
محبت کے انکار کو زرا سنبھالیے
ابھی ہوگی گفتگو میں پس و پیش
فلحال تو اس تکرار کو سنبھالیے
پھول تو تمھیں مل ہی جاٸیں
گے
ابھی تو اس خار کو زرا سنبھالیے
بہت کہتے ہو نہیں ڈرتا مرنے سے
پھر اس تختہ دار کو زرا سنبھالیے
یوں بھی نہ ہوجاٶ
پھر خود سے باہر
آدابِ الفت ہے اظہار کو زرا سنبھالیے
عشق فرماٸیے
حدود و قیود میں
اندھی جزباتی دیوار کو زرا سنبھالیے
جانے کیا کیا ہیں اب تو خواہشیں
عاشقِ دل گیر کو ہی زرا سنبھالیے
لٹ ہی نہ جاٸے
کہیں بھروسے پر
جوبن کے اس سنگار کو زرا سنبھالیے
ابھی تو بہت ہونگی دستکیں سرکش
چل کر دلِ بیزار کو زرا سنبھالیے
No comments:
Post a Comment