سنا ہے سال بدلا ہے
میں سوچتا ہوں
تنہا بیٹھ کر اکثر
صرف سال ہی بدلا ہے
فریال تو وہی رہ گئی
اس ملک میں رہنے والے
بلا کے پاگل جنسی درندے
سب کچھ تو وہی ہے
یہاں تو کچھ بھی نہیں بدلا
یہاں ہر روز
اک نئی جنس کی منڈی لگتی ہے
ہوس کے پجاری یہاں
روز آنے والی کالی راتوں میں
اپنی ہوس کی چادر پر
اک نیا پھول مسلتے ہیں
اور وہی پاگل درندے
میرے ملک کی پاک سڑکوں پر
کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں
روزانہ ایک نئی زینب
ایک نئی فریال اجڑتی ہے
ان درندوں کے گھیرے میں
کتنی معصوم کلیاں
سسکتی اور مچلتی ہیں
پر ان کو ذرا بھر ترس نہیں آتا
میں سوچتا ہوں بیٹھ کر
نۓ
سال کے بدلنے سے
یہاں کچھ بھی تو نہیں بدلا
بہت غمگین ہوتا ہوں
پھر بے اختیار روتا ہوں
پھر میں سوچتا ہوں بیٹھ کر
کب وہ نیا سال آئے گا
جب میرے ملک کی ننھی کلی
اپنی گلیوں اور محلوں میں
بلا خوف وخطر
کھلے گی اور مسکرائے گی
کہ جب یہ سب دیکھ لوں گا
پھر مان لوں گا میں
کہ نیا سال آیا ہے
واقعی نیا سال آیا ہے
عمران اشرف
No comments:
Post a Comment