ِاک عمر گزاری ہم نے بھی
دُکھ سہتے ہوے
سکھ کہتے ہوے
چپ رہتے ہوے
کبھی کہتے ہوے
ہاں ٹھیک ہیں ہم
خوشحال ہیں ہم
اِک خواہش ہے دل میں بستی
کوئ پوچھے تو
کوئ جھانکے تو
کبھی اپنے دل کے اندر بھی
کبھی ہم کو بھی میسر ہو
وہ کاندھا جس پر سر رکھ کر
بس روئیں زار و زار کبھی
اور کچھ نہ کہیں
کوئی سمجھ بھی لے
کبھی اپنے دل کے دکھ کو بھی
نہ دیکھے ظاہری سکھ کو ہی
(صوفیہ ارسلان)
No comments:
Post a Comment