لوگوں کے نقاب ہیں کہ اترتے کیوں نہیں
ہیں
معافی مانگتے ہیں تو بدلتے کیوں نہیں ہیں
جانے کیا سوچ کے پلٹ آتے ہیں زیست میں
ربّ کو ماننے والے ربّ سے ڈرتے کیوں نہیں
ہیں
کس ڈھڑلے توڑتے ہیں یوں مان اور پھر دل
یہ خاک کے پتلے پھر سنبھلتے کیوں نہیں
ہیں
روزِمحشر بھی سناٸیں
گے کیا سارے افسانے
دنیا میں یہ لوگ سچ کو اگلتے کیوں نہیں
ہیں
سیکھے ہی نہیں ہیں کبھی یہ زندگی کا سبق
اپنی زات کے حصار سے نکلتے کیوں نہیں ہیں
بہاتے ہیں اپنے ہی درد پر یہ خوب آنسو
سرکش
کسی اور کے غم پہ یہ مچلتے کیوں نہیں ہیں
معصوم ہیں بیوقوف سہی پر اسقدر بھی نہیں
سرکش
اب سمجھے ہم لوگ بار بار پھسلتے کیوں نہیں
ہیں
No comments:
Post a Comment