سوچوں کی کشمکش کچھ عجیب ہے
کرے بات وہ تو بھی جناب غضب ہے
دورِ جدید ہے آج پھر بھی جانے کیوں
درمیان میں آتا اب بھی حسبُ نسب ہے
ڈرتے ہیں تُو بس دلوں کی بَددعاٶں
سے
جانتا یہ بات تُو صرف میرا ہی ربّ ہے
جانے کیسے گزارتا ہوگا وہ صُبح و شَام
خیال اس کا ستاتا مجھے تو ہر شَب ہے
بہت مجبور ہیں بے بس ہیں ہم جاناں
کہاں سب کےہاتھوں میں ہوتاسب کچھ ہے
سلسلہ کلام اس لٸے
ہی توڑے رکھتے ہیں
یونہی بہتری اور کچھ یہی حدِ ادب ہے
جانے کہاں کہاں دستک دیتی ہے مُحبت
اور عشق دیکھاتا کیسے کیسے کرتب ہے
No comments:
Post a Comment