جانے یہ سب لوگ ہم سے
کونسی عاجزی چاہتے ہیں
کہ ہم ہر آنے جانے والے کو
لبیک کہیں
ہر کسی کا دل رکھّ لیں
جس کو انکار کریں وہی
ہمارے مُغرور اور سنگدل ہونے کا
عَلم لیٸے
کھڑا ہوگا اور پھر
معاشرے کے یہی امِین
سب سے بات کرنے پر
میرے کردار کی دھجیاں بھی
بڑی آسانی سے بکھیر دیں گے
بنا یہ سوچے کہ
میں جیسی بھی ہوں جناب
یہ آپ ہی کی تو مہربانی ہے
لوگوں کی
کھیلونا سمجھ لینے والی
فطرت نے ہی تو
مجھے اپنے ترتیب دیٸے
ہوٸے
اصولوں میں قید رہنے پر مجبور کیا ہے
میرے اوپر اِس قدر
خول چڑھا دیٸے
ہیں کہ اب
ہر اک سے سختی سے پیش آنا
بہت ضروری ہوگیا ہے
اپنی زات اپنی روح اور
اپنے کردار کی حفاظت کیلٸے......!!!!!
شاعرہ: سرکش
No comments:
Post a Comment